کالم

علامہ دلاور حسین سعیدیؒکی دینی خدمات

riaz chu

علامہ دلاور حسین سعیدیؒ نائب امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش جیل میں انتقال فرما گئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔83 سالہ علامہ دلاور حسین سعیدی جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے مرکزی رہنما اور تین دفعہ ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئے ۔انہیں جون 2010 میں گرفتار کیا گیا تھا۔جماعت اسلامی کے رہنما کو جنگی جرائم کے متنازع ٹربیونل نے 2013 میں قتل، ریپ اور ہندوو¿ں کو ہراساں کرنے کے الزامات میں سزائے موت س±نائی تھی جس کے بعد ان کی جماعت کے ہزاروں کارکنوں کے ملک گیر احتجاج کے نتیجے میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس احتجاج کے بعد کریک ڈاو¿ن میں جماعت اسلامی کے لاکھوں کارکنوں اورحامیوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ان کی نماز جنازہ ضلع فیروزپور میں ادا کی گئی جس میں ہزاروں افراد شریک ہوئے۔ ڈھاکا پولیس نے دلاور حسین سعیدی کی غائبانہ نماز جنازہ کی اجازت دینے سے انکار کردیا ۔علامہ سعیدی ؒ کو سنٹرل جیل ڈھاکہ میں قید رکھا گیا ۔انہیں پاکستان سے محبت کرنے کے جرم میں بنگالی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے نام نہاد جنگی جرائم کے ٹربیونل کے تحت سزائے موت دی مگر سپریم کورٹ نے اسے عمر قید میں تبدیل کر دیا۔ 13سال قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والا رجل عظیم جسے شدید بیماری کی حالت میں موت سے چند گھنٹے قبل جیل سے ہسپتال منتقل کیا جارہا تھا ، آخر کار اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ وفات کے وقت ان کے چہرے پر کتنا وقار ، کتنا جلال ، کتنا جمال اور کتنی سکینت اور طمانیت کے آثار تھے۔ اسی لمحے انھوں نے وہ کچھ فرمایا جو جرات وجسارت، بہادری و دلیری، صبر واستقامت اور امید ویقین کا زبردست عکاس ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ”مجھے جان سے دھمکانے کا کوئی فائدہ نہیں، میں ابراہیم کا جانشین ہوں جنہیں آگ میں ڈالا گیا تھا۔“ان کا جرم صرف اتنا تھا کہ انہوں نے فریضہ اقامت دین کےلئے جدوجہد، جماعت اسلامی سے وابستگی، سالمیت اور استحکام پاکستان پر عقیدہ، ہمت، جرات، استقامت اور فسطائیت کے سامنے جھکنے سے انکارکر دیاتھا۔ علامہ دلاور حسین سعیدی کی وفات کی خبر پا کر سینکڑوں لوگ ہسپتال میں پہنچ گئے جہاں پر انھوں نے نعرہ بازی شروع کردی تھی۔ بنگلہ دیش حکومت نے بنگلہ دیش میں کسی بھی ممکنہ احتجاج سے نمٹنے کے لیئے تمام اضلاع کی پولیس کو الرٹ کیا گیا ۔ ان کی وفات پر دارالحکومت ڈھاکا سمیت بنگلادیش میں ہنگامے پھوٹ پڑے، ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور حکومت کے خلاف شدید احتجاج کیا۔علامہ دلاور حسین سعیدی بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے مقبول عام رہنما سمجھے جاتے ہیں۔ انھوں نے دینی اور مذہبی تعلیم جامعہ بنوری ٹاون میں حاصل کی تھی۔ انھوں نے 1979 میں جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے مطابق علامہ دلاور حسین سعیدی کی مقبولیت سے پریشان حال حکومت نے انھیں جھوٹے الزامات میں جیل میں رکھا تھا۔علامہ دلاور حسین سعیدی کا شمار پر جوش مقرریں میں کیا جاتا تھا۔ سیرت نبی کے جلسوں میں لاکھوں سامعین انہیں سننے آتے تھے۔علامہ سعیدی رحمہ اللہ معروف عالم دین، مفسر قرآن، مقبول ترین مقرر اور بین الاقوامی شہرت یافتہ اسلامی اسکالر تھے۔ صحیح معنوں میں مرجع خلائق تھے۔بنگلہ دیش کی حکومت پر ان کی رہائی کے لئے بنگلہ دیش کی عوام سعودی عرب اور قطر کے علماءکا بھی دباو¿ تھا وہ صرف جماعت اسلامی کے ہی نہیں بلکہ ورلڈ علماءکونسل کے بھی ممبر تھے ان کے شاگردوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے جو دنیا بھر میں موجود ہیں۔جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے فیس بک پیج پر دلاورسعیدی کی موت کا اعلان کرتے ہوئے حکام پر الزام عائد کیا کہ دلاور سعیدی کو علاج سے محروم رکھ کر ’شہید‘ کیا گیا۔ جماعت اسلامی کوبڑی سیاسی قوت بنانے کا سہرا دلاور سعیدی کے خطابات اور تبلیغ کو دیا جاتا ہے۔علامہ دلاور سعیدی 71 کی جنگ کے موقع پرجامع علوم اسلامیہ کراچی میں زیرتعلیم تھے۔ پاکستان کی حمایت کرنے پر 1970 کی دہائی میں جماعت اسلامی پر پابندی عائد رہی لیکن 1990 کی دہائی تک یہ ملک کی تیسری بڑی قوت اور سب سے بڑی مذہبی جماعت بن گئی۔جناب سراج الحق امیر جماعت اسلامی پاکستان نے علامہ دلاور حسین سعیدی کی دوران قید وفات پر افسوس اور دلی صدمہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بنگلہ دیش کے عوام، جماعت اسلامی کے ذمہ داران و کارکنان اور ان کے اہل خانہ سے پاکستانی قوم کی طرف سے تعزیت کرتا ہوں۔ اللہ تعالی ان کی قربانی و آزمائش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے، جنت الفردوس میں اعلی علیین میں خصوصی مقام ومرتبہ سے نوازے، اپنے محبوب ترین بندوں میں شامل فرمائے۔ آمین۔بنگلہ دیش کی حکمران اور سیکیولر نظریات رکھنے والی جماعت عوامی لیگ نے 2010 میں جنگی جرائم کا ٹربیونل بنایا تھا جس نے 1971 میں پاکستان سے آزادی کی جنگ کے جرائم کے حوالے سے تحقیقات اور سزاو¿ں کا تعین کرنا تھا مگر اس ٹربیونل کی کارروائی کو عالمی سطح پر قبول نہیں کیا گیا اور اس کو انتہائی متنازع قرار دیا گیا لیکن بنگلہ دیش کی حکومت نے یہ ٹربیونل ختم نہیں کیا اور سزاو¿ں کا سلسلہ تاحال جاری ہے جبکہ بنگلہ دیش میں عمومی تاثر ہے کہ شیخ حسینہ واجد کی حکومت اس ٹربیونل کو مخالفین کے خاتمے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔بھارت اور اس کے زیرسایہ عوامی لیگ کی حکومت، بنگلہ دیش کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔اس ضمن میں وزیراعظم حسینہ واجد کا یہ بیان بڑی اہمیت کا حامل ہے : ”فوج، انتظامیہ اور عوام سے مَیں یہ کہتی ہوں کہ جو لوگ ’جنگی جرائم‘ کے ٹربیونل کو ناکام بنانا چاہتے ہیں، آپ آگے بڑھ کر انھیں عبرت کی مثال بنا دیں“۔ کیا کوئی جمہوری حکومت فوج , انتظامیہ اور عوام کو اس اشتعال انگیز انداز سے ابھارکر، اپنے ہی شہریوں پر حملہ آور ہونے کی دعوت دے سکتی ہے؟ لیکن سیکولر، جمہوری، ترقی پسند اور بھارت کے زیرسایہ قوت حاصل کرنے کی خواہش مند عوامی لیگ کی حکومت اسی راستے پر چل رہی ہے۔ انتقام کی آگ میں وہ اس سے بھی عبرت حاصل نہیں کر رہی کہ ایسی ہی غیرجمہوری، آمرانہ اور بھارت کی تابع مہمل ریاست بنانے کی خواہش میں ان کے والد شیخ مجیب الرحمن، ہم وطنوں کے ہاتھوں عبرت کا نشان بنے تھے۔ حسینہ واجد حکومت نے انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے گزشتہ 14 سال سے علامہ دلاور سعیدی کو قید میں رکھا مگر انہوں نے سنت یوسفی ادا کرتے ہوئے نہایت ثابت قدمی اور استقامت سے جیل کی صعوبتوں کا ہنس کر سامنا کیا۔ دنیا بھر میں تحریک اسلامی کے کارکنان کےلئے مشعل راہ بنے۔ تاریخ کے صفحات پر ان کا نام اور قربانی سنہری حروف سے لکھے جائیں گے۔
بجھا جو روزن زنداں تو دل یہ سمجھا ہے
کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہوگی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے