اداریہ کالم

عمرا ن خان کے طرزعمل پروزیراعظم کااظہارخیال

idaria

وزیراعظم شہبازشریف میاںمحمدشہبازشریف نے گزشتہ روز عمران خان کانام لئے بغیر ایوان بالا میں اس کی طرف سے کی جانے والی لاقانونیت کاذکرکرتے ہوئے کہاکہ عمران خان ملکی قوانین کوتوڑنے پرتلاہواہے اور تمام قواعد وضوابط کو اپنے پاﺅں تلے روندکرمحض اپنی اناکوبرقرار رکھناچاہتا ہے اوراس مقصد کے لئے وہ عام آدمی کو اداروں سے قومی اداروں کے ساتھ لڑانے کی پالیسی پرگامزن ہے ۔وزیراعظم کایہ کہنابالکل بجاہے کیونکہ ایک جانب عمران خان عوامی جلسوں سے خطاب کرنے کاخواہشمند ہے ، کارکنان کی ریلیوں کی قیادت دھڑلے سے کرتاپھررہاہے مگر دوسر ی جانب عدالتوں میں پیش ہونے سے گریزاں ہے اور موقف یہ اختیارکرتاہے کہ اسے عدالتوں میں پیش ہوتے وقت اپنی جان کاخطرہ ہے ۔ پاکستان کی گزشتہ پچھترسالہ تاریخ میں ایسا رہنمادیکھنے میں نہیں آیا کہ جواپنی گرفتاری سے ڈرتاہو مگر قوانین پرعملدرآمدہی نہ کرتا ہو بلکہ ملک کے تمام اداروں کوبھی للکارتاپھرے ۔ ان حالات میں ہائیکورٹ کی ابزرویشن بھی قابل ذکرہے کہ جس میں کہاگیا ہے کہ تحریک انصاف نے زمان پارک میں تماشہ لگارکھاہے اورپوری قوم کو ہیجانی کیفیت میں مبتلاکیاہوا ہے ۔یہ صرف وزیراعظم پاکستان کاشکوہ نہیں بلکہ پوری قوم اسی نہج پرسوچ رہی ہے ایک ایساشخص جو پاکستان کے بائیس کروڑعوام کاوزیراعظم رہ چکاہو جب اسے وزارت عظمیٰ سے آئینی طریقہ کارکے مطابق ہٹایاجائے تووہ عدلیہ ،حساس اداروں،الیکشن کمیشن اور قومی اسمبلی وصوبائی اسمبلیوں کو للکارتاپھرے ۔یہ نہایت افسوسناک امر ہے اور تاریخ میں یہ منظرپہلے کبھی نہیں دیکھا۔ عمران خان اپنے آپ کو خودمقدمات میں الجھاتا پھررہاہے اپنے خلاف خودمقدمات بنواتاپھررہاہے اور پھر گلہ اس بات کاکرتاہے کہ اس کے خلاف بنائے جانے والے سارے کیسزغیرقانونی ہیں ۔اسی حوالے سے گزشتہ روز وزیراعظم پاکستان نے ایوان بالا میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج ایک لیڈر ملک تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے لیکن اسے اس کی اجازت نہیں دیں گے، کہا جاتا ہے کہ گرفتار کیوں نہیں کیا جاتا، احتیاط کا پہلو نہیں چھوڑا جا سکتا، جلاو¿ گھیراو¿ کی تحریک کو ہوا دی جا رہی ہے،یہ نہیں کہ ریاست کا مفاد داو¿ پر لگ جائے،معاملات کو بگڑنے سے روکنے کے لیے تحمل کا مظاہرہ کیا جا رہا ۔سیاسی اختلاف چھوڑ کر بیٹھ کر فیصلے کرنے ہوں گے، ابھی بھی وقت ہے آئیں مل بیٹھ کر ملک کا مستقبل سنواریں،سازش نہ کریں کاوش کریں، ماضی میں بھی سب نے مشکل حالات میں مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالا ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ سیلاب میں مدد کرنے پر تمام دوست ممالک کا مشکور ہوں، کوئی شک نہیں کہ پاکستان مشکل دور سے گزر رہا ہے، یوکرائن کرائسز کی وجہ سے پاکستان میں بھی امپورٹڈ مہنگائی ہے، یوکرائن کرائسز کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک شدید متاثر ہوئے۔ سابق دور میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کیا مگر اس پر عملدرآمد نہ ہوا، جس سے پاکستان کی بدنامی ہوئی، اقتدار میں آتے ہی ہمارے پاس دو راستے تھے، ایک راستہ تھا کہ سبسڈیز دیتے یا ذمہ داری اٹھاتے، ہم نے مشاورت سے ریاست کو محفوظ کرنے کا راستہ اپنایا، ہم نے کفایت شعاری اپنائی، حکومتی اتحاد جماعتوں کے سربراہان نے کہا کہ ریاست بچانی ہے سیاست قربان کر کے۔آ ئی ایم ایف معاہدے کی خلاف ورزی سے عالمی سطح پر پاکستان کے تشخص کو نقصان پہنچا، بڑا انسان وہ ہوتا ہے جو اپنی غلطی تسلیم کرلے، خطا کار انسان ہوں بے پناہ خطائیں کی ہوں گی، اللہ سے دعا ہے وہ پاکستان کو بہتری کی طرف لے جائے۔ ماضی میں شدید اختلافات کے باوجود پاکستان کے عظیم تر مفاد میں سیاسی قائدین ایک ساتھ بیٹھتے تھے، ماضی میں قائدین نے مسائل پر گفت و شنید کی اور اسکا حل نکالا، ہم نے دیکھا کہ 1965 میں سب قوم وطن دفاع کےلئے متحد ہوئے، شدید اختلاف کے باوجود 1971 جنگ کے بعد جب وزیراعظم نے شملہ روانہ ہوئے تو سب نے رخصت کیا ۔ یہ حالات آج پاکستان کے لیے بہت بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔ گزشتہ حکومت میں فاشسٹ طریقے سے نیب کے قوانین کو آرڈیننس کے ذریعے تبدیل کیا گیا، گزشتہ حکومت میں اربوں، کھربوں کی کرپشن ہوئی، ریٹائرڈ ججز کو لگانے کا آرڈیننس جاری کیا گیا، یہ وہ صورتحال تھی جس کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے، بعض ایسے راز سینے میں دفن ہیں ان پر بات نہیں کر سکتا، قومیں وہی کھڑی ہوتی ہیں جو قربانیاں دیتی ہیں ۔ معاشی نظام کو ٹھیک کرنے کےلئے سیاسی استحکام لازم ہے، اگر سیاسی استحکام نہیں ہو گا تو پھرمعاشی استحکام خواب ہے، وزیر خزانہ اور ہماری ٹیم ملک کو مشکلات سے نکالنے کی پوری کوشش کر رہی ہے، آئی ایم ایف کی شدید کڑوی شرائط پوری کر دی ہیں، اگلے چند دنوں میں سٹاف لیول کا معاہدہ ہونا چاہیے، آئی ایم ایف معاہدے میں تاخیر میں اپنے لوگوں کے شور کرنے کا بھی قصور ہے، آئی ایم ایف والے اندھے نہیں سب کچھ دیکھ رہے ہیں، لیڈر وہ ہوتا ہے جو ذات کی قربانی دے ملکی مفاد کی نہیں۔کارگل معرکے نے کشمیر کاز کو کمزور کیا۔پاکستان کی تاریخ میں 25پروگرام ہو چکے ہیں، ایک ہمسایہ ملک نے 1988کے بعد آئی ایم ایف کا رخ نہیں کیا، ہماری صورتحال یہ ہے قرض ملنے پر شادیانے بجاتے ہیں، اس طرح قومیں نہیں بنتیں، بطور قوم ہم سب کو سر جوڑ کر فیصلے کرنا ہوں گے، اکنامک ریفارمز پر پوری لیڈرشپ کو سرجوڑ کر بیٹھنا ہو گا۔ 2018 میں بطور اپوزیشن لیڈر چارٹر آف اکانومی کی بات کی تو مذاق اڑایا گیا اور ٹھکرا کر چور، ڈاکو کے الفاظ سے نوازا گیا، ابھی بھی وقت ہے ہم ہوش کے ناخں لیں، مل بیٹھ کر فیصلے کریں، چند دن بعد 23مارچ کی آمد آمد ہے۔ آج پوری صورتحال پلٹ دی گئی، کس طرح کہا گیا کہ یہ امپورٹڈ حکومت ہے اور اس کے پیچھے امریکہ ہے، یہ بات مان لی گئی تھی، مگر اگلے دن یوٹرن کے بادشاہ نے یوٹرن لیا، میری بطور وزیراعظم ذمہ داری ہے کہ حقائق سامنے رکھوں، ہم سب کو مل بیٹھ کر اپنے مسائل کا حل نکالنا ہو گا، ابھی بھی پورا وقت ہاتھ سے نہیں نکلا، وقت ہے کہ بیٹھ جائیں۔
پاکستان کاایٹمی پروگرام اورپراپیگنڈہ مہم
پاکستان کے پُرامن ایٹمی پروگرام کو ختم کرنے کے لئے روزاول سے ہی کوششیں جاری ہیں، کبھی اسے غیرمحفوظ قراردیاجاتاہے تو کبھی اسے خطرناک قراردیاجاتاہے ۔دراصل مغربی طاقتوں کو یہ بات گوارانہیں کہ کوئی مسلم ملک ایٹمی طاقت بن سکے۔یہی وجہ ہے کہ اس کے خلاف پراپیگنڈامہم شروع سے چلی آرہی ہے اوراس پروپیگنڈا مہم میں پاکستان کے کچھ سیاستدان ، صحافی اوراین جی اوز بھی شامل ہیں جواپنے ذاتی مفادات کے لئے اسی پروپیگنڈے کی ہاں میں ہاں ملارہے ہیں مگر پاکستان کا ایٹمی اور میزائل پروگرام قومی اثاثہ ہے، ایٹمی اور میزائل پروگرام مکمل طور پر محفوظ اور فول پروف ہے، پروگرام پر کسی قسم کا کوئی دبا ﺅنہیں ہے،وزیراعظم آفس سے جاری ایک اعلامیے کے مطابق ریاست پاکستان ایٹمی اور میزائل پروگرام کا بھرپور تحفظ کر رہی ہے اور جس مقصد کے تحت یہ صلاحیت حاصل کی گئی تھی وہ مکمل طور پر پورا ہو رہا ہے۔ سوشل اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے ڈی جی آئی اے ای اے کے حالیہ دورے سے متعلق منفی تاثر پھیلانے کی کوشش کی گئی حالانکہ ڈی جی آئی اے ای اے کا دورہ پاکستان پر امن ایٹمی پروگرام سے متعلق تھا۔
امریکی محکمہ خارجہ کابیان لمحہ فکریہ
امریکہ کے اندر مسلمانوں کے خلاف کئے جانےوالے امتیازی سلوک کے حوالے سے ایک نئی خبرمنظرعا م پرآئی ہے اوریہ خبرکسی این جی اویاکسی مخصوص پارٹی کی جانب سے بلکہ خود ا مریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے آنیوالے بیان کہی گئی ہے۔امریکہ دنیا میں شخصی اورمذہبی آزادیوں کاحامی ملک تصورکیاجاتاہے اوروہاں کی ایک اہم اورذمہ دارشخصیت کی جانب سے اس قسم کابیان آنالمحہ فکریہ ہے۔امریکی وزیرِ خارجہ انتونی بلنکن نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کو اکثر اپنے مذہبی عقائد کی بنیاد پر امتیازی سلوک اور نفرت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بلنکن نے کہا کہ ہر شخص کوہر جگہ فکر ضمیر مذہب اور عقیدے کی آزادی کا حق حاصل ہے، اس میں اپنے عقائد کو تبدیل کرنے یا نہ ماننے کی آزادی بھی شامل ہے ہر فرد کو انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر دوسروں کےساتھ، عوامی یا نجی طور پر، عبادت، عمل اور تعلیمات میں ان عقائد کو ظاہر کرنے کی آزادی بھی ہے۔ اسلام قبول کرنے یا اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے والوں یا صرف مسلمان کی حیثیت سے شناخت کر کے ہراساں کیا جاتا ہے، یا حتیٰ کہ قتل بھی کیا جاتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے