کالم

عوام کی قسمت میں دھکے

دنیا میںجمہوریت اور تبدیلی بذریعہ انتخاب کا غلغلہ ہے لیکن باشعور حلقے اس جمہوریت اور نتخابات کو ڈھونگ اور سرمایہ داروں کا کھیل قرار دیتے ہیں جو صرف چہروں کی تبدیلی کانام ہے جبکہ پالیسیاں وہی رہتی ہیںاس کی مثال امریکہ ہے جہاں یہ کھیل ملٹی نیشنل کمپنیاں کھیلتی ہیں نظام وہی قائم رہتا ہے اور پالیسیاں وہی باقی رہتی ہیں ۔دنیا کے ننانوے فیصد عوام کا بنیادی مسئلہ روٹی کا ہے ، روٹی کے حصول کیلئے عوام مارے مارے پھر رہے ہیں اور نوالے کی تلاش میں ہاتھ پیر مار رہے ہیں اور نوالہ ہے کہ ان کے ہاتھ نہیں آتا ہے ۔ خاص کرپاکستانی نظام کے سیاسی مسخروں نے عوام کو مہنگائی خوف اور بھوک کے تحفے کے اور کچھ نہیں دیا ہے جب بھی انہیں ضرورت ہوتی ہے وہ عوام کے سڑکوں پر نکلنے کی بات ضرور کرتے ہیں لیکن ان کے پاس عوام کے بنیادی مسائل کا کوئی حل نہیں ہے اس بنا پر عوام نہ سڑکوں پر نکلتے ہیں اور نہ جمہوریت اور آمریت میں ان کی دلچسپی ہے ان کیلئے وہی لیڈر اچھا ہے جو ان کے بنیادی مسائل حل کرسکے ۔ گزشتہ چوہتر برسوںمیں پاکستان پر مسلطہ نظام نے داﺅ وپیچ تو بہت کھائے ہیں اور روپ بدلنے میں کافی شہرت حاصل کی ہے اگر چہ اس کا حقیقی چہرہ چھپا ہوا ہے اور طاقت کی ڈوری جس کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہ کبھی سامنے نہیں آتا ہے ہم نے اس نظام کو عسکری وردی ہی میں دیکھا ہے اس کے علاوہ یہ نظام کبھی واسکٹ اور شیروانی کی نمائش کرتا ہے اور کبھی کوٹ پینٹ ی کی صورت میں سامنے آتا ہے جب بھی یہ نظام اپنا رنگ بدلتا ہے تو غریب آدمی اگر چہ خوشی سے شادیانے بجاتا ہے اور تالیاں پیٹ کر اپنے سرخ کرتا ہے مگر اسکے چہرے کی سرخی زائل ہوتی جاتی ہے اور اسکے چہرے کی زردی میں اور اضافہ ہوتا جاتا ہے ۔یہ ہمارا ایک قومی المیہ ہے کہ جو روٹی اور کپڑ ا اور مکان کی بات کرتا ہے اسے تحسین کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہے اور اسے سوشلسٹ اور کیمونسٹ وغیرہ قرار دیکربدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس کےخلاف فتوے اس طرح داغے جاتے ہیں جس طرح میزائل داغا جاتا ہے اور اسے پھانسی وغیرہ دینے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا ہے جس کی مثالیں موجود ہیںاور جو فتویٰ دینے والے ہیں وہ اس کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ انسان روح اور جسم دونوں سے مرکب ہے اوردونوں کے تقاضے الگ الگ ہیں اس انسان نے اسی سوسائٹی میں زندگی گزارنی ہے اور یہاں پنا وقت پورا کرنا ہے اسکے روح کے بھی کچھ تقاضے ہیں اور جسم کے بھی کچھ تقاضے ہیں انسان نے ان دونوں سے نمٹنا ہے اپنے مادی تقاضوں کو پورا کئے بغیر انسان معاشر ے میں اپنی ذندگی گزانے کی نشوونما جاری نہیں رکھ سکتا ہے روٹی کپڑا اور مکان اور بود وباش ۔اس وقت ہمارے سیاسی لیڈروں کو عوام سے یہ شکوہ ہے کہ وہ ان کی کالو ں پر سڑکوں پر نہیں نکلتے ہیں اپوزیشن کی یہ خواہش ہے کہ عوام سڑکوں پر نکل کھڑے ہوںتاکہ حکمرانوں کا دھڑن تختہ ہو جائے اور اپوزیشن کو اقتدار حاصل کرنے کا موقع مل جائے لیکن عوام ہیں کہ وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے ایک تو اب انہیں خود کش دھماکوں سے ڈر لگنے لگ گیا ہے کیونکہ ان دھماکوں میں زیادہ تر غریب عوام ہی نشانہ بنتے ہیں اور ان کو دال روٹی کا بھی مسئلہ ہوتا ہے اورانہیں اپنے بچوں کا پیٹ پالنا بھی ہوتا ہے کیونکہ ان کی ایک دیہاڑی کے ضائع ہونے سے ان کے گھر کا بجٹ متاثر ہوتا ہے اور پاکستانی عوام یہ بھی جاننے لگے ہیں کہ ان سیاسی لیڈروں نے انہیں کیا دیا ہے سوائے غربت اور مہنگائی کے اور عوام یہ بھی سمجھنے لگے ہیں کہ ہمارے یہ رہنماﺅں اور سیاسی کردار بشمول سیاسی مذہبی لیڈران سب کے سب نو آبادیاتی نظام کی گلی سڑی لاش کے وارث اپنے مفادات کیلئے ایک دوسرے پر غراتے ہیں اور اپنے مفادات کیلئے یہ عناصر عوام کو استعمال کرتے ہیں ۔دیکھا جائے تو ہمارے ملک میں مذہب اور مسلک کے نام پر ایک دوسرے کو بم کا نشانہ بنانے والے ہو ا،افسر شاہی قبضہ گروپ ہو ےا کسان اور مذدور کا خون چوسنے والے جاگیر دار اور سرمایہ دار ہواور ےا قوم پرستی کے نام پر ایک دوسرے کو تہ تیغ کرنےوالے ہوان سب کے مفادات عوام پر ظلم کرنے سے وابستہ ہیں اور یہ قومی مفادات سے عاری ہیں اوریہ سب الا ماشاءاللہ سامراجیت کے آلہ کار ہیں یہ تو نہ دور کے تقاضوں سے آگاہ ہیں اورنہ ان کو اپنے شاندار ماضی کا ادراک ہے اور ان سے بہترمستقبل کی توقع رکھنا بھی حماقت ہے کیونکہ نہ کا کوئی یہ نصب العین ہے اور نہ ان کے پاس کوئی حکمت عملی ہے بلکہ یہ سامراج کی چھتری کے نیچے عوام کا استحصال کرنے میں مصروف ہیں اور مال جمع کرنا اور قومی خزانہ پر ہاتھ صاف کرنا ان کی سیاست کا وطیرہ ہے اور یہی ان کا مشن ہے جس پر سب گامزن ہیں ، اب عام آدمی بھی سمجھنے لگ گیا ہے کہ یہی فرعونی سیاست کی جھلک ہے جو ایکسویں صدی میں دیکھی جاسکتی ہے۔وطن عزیز میں قدرت نے کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی ہے یہاں بہتے ہوئے دریا، سرسبز جنگات، زرخیز اراضی، اور زمین میں چھپے معدنیات اور جواہرات کی کمی نہیں ہے لیکن ذاتی مفادات اورر ناقص حکمت عملیوں اور کمیشن کے عوض کئے ہوئے معاہدوں نے پوری قوم کو بھکاری بنایا ہوا ہے ورلڈبینک اور آئی ایم ایف کے قرضہ جات نے ملک کی تباہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے اور مسائل پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کا قبضہ ہے اور سچی بات یہ ہے کہ اس دور کے بت یہ ملٹی نیشنل کمپنیا ں ہیں عام آدمی سڑک پر اس لیئے نہیں نکلتاہے کہ اس کے مسائل کا حل کسی کے پاس نہیں ہے اور انہیں اپنے آنےوالے نسلوں کا مستقبل بھی تاریک نظر آرہا ہے ۔اسلامی تعلیمات کے مطابق روٹی، کپڑا، صحت، تعلیم اورروزگارقوم کے ہر فرد کا بنیادی حق ہے لیکن وہ ملک کے عام آدمی کے دسترس سے باہر ہے ۔مذہب کے حقیقی تصور کے جگہ فرقہ واریت نے لے لی ہے عوام کے بھوک مٹانے کا پروگرام کسی کے پاس نہیں ہے جھوٹ کے ذریعے سیاست کو چلایا جارہا ہے غریبی اور مفلسی اوراور محتاجی نے ہر شخص کو دوسرے نفرت کرنے پر مجبور کردیا ہے سیاسی اور معاشی ڈھانچہ میں خرابی کے باعث ہر شخص دوسرے سے دست وگریبان ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک سے غربت اور مہنگائی اور بیروزگاری کو ختم کیا جائے عوام کو نہ جمہوریت سے دلچسپی ہے اور آمریت سے بلکہ عوام کو ایک ایسے صالح نظام کی ضرورت ہے جو عوام کے مسائل حل کرسکے اور ان کے حقوق کا تحفظ کرسکے تاکہ اس کی روحانی ترقی ہے اور وہ محض روٹی کی تلاش میں مارا مارا نہ پھرے بلکہ اپنی روحانی ترقی کیلئے بھی اس کے پاس وقت موجود ہو !۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے