کالم

غریب عوام اور سیاستدانوں کی لڑائیاں!

ملک میں قیادت کے فقدان اور سیاستدانوں کی آپس کے تنازعات نے پاکستانی معاشرہ آج کل ایک خاص قسم کے اضطراب سے دوچار کر دیا ہے، جہاں ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں پر حکومت اپنا کنٹرول کھو چکی ہے۔ حکومت اور اس کے متعلقہ ادارے اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں اور مافیاز سرگرم ہیں، جو عوام کو نوچنے کےلئے کھلے چھوڑ دیے گئے ہیں۔ اشیائے خورد و نوش سے لے کر زندگی کے ہر شعبے کو مہنگائی نے اپنے آہنی پنجے میں جکڑ لیا ہے۔ ایسے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کی مارکیٹ اور بازار کسی قانون کے تابع نہیں رہے۔ جس کا جو جی چاہتا ہے، وہ کررہا ہے۔پٹرول، گیس، بجلی، خوراک اور ادویات کی قیمتوں میں ہوش ر±با گِرانی نے انسانوں کی زندگیوں کو دوبھر کردیا ہے۔ بیوروکریسی اور اقتدار پر قابض اشرافیہ ملک کو درپیش چیلنج کی سنگینی سے ابھی بھی لا پرواہ نظر آرہی ہے۔ وہ اس سے اب بھی اقتدار کی جنگ کے طور پر نمٹنے کی کوشش کررہی ہے۔بدعنوانی، اقربا پروری، خراب حکمرانی اور اس کی معاشی تباہی حد سے کیوں بڑھ رہی ہے۔جنوبی کوریا جو ایک ناکام ریاست کہلاتی تھیاس وقت دنیا کی دسویں بڑی معیشت کے درجہ پر ہےجبکہ چین آج دنیا کی معیشت میں سر فہرست ہے۔ ایتھوپیا کی کرنسی بھی ہم سے آگے ہے۔بنگلہ دیش اور افغانستان جو پس ماندہ اور غریب تھے ہم سے آگے نکل گئے ہیںاس کی وجہ وہاں کی قیادتوں کے درست فیصلے ہیںجب کہ ہماری حکمران اشرافیہ نے اپنی نااہلی، کرپشن اور اقربا پروری سے ملک کو تباہ کر دیاہے ۔ قومی ترقی معکوس ہے اور پوری قوم کو اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنے کےلئے چھوڑ دیا گیا ہے۔ آج بھی ملک پرمسلط سیاستدان ایک دوسرے کے ساتھ لڑ رہے ہیں اور ان کے غیر ذمہ دارانہ رویے کے باعث عوام فاقوں پرمجبور ہیں۔معیشت بیرونی قرضوں کی بیساکھی پر کھڑی ہے اور جہاں ایک عام آدمی کے لیے دو ٹائم کا کھانا حاصل کرنا مشکل ہوچکا ہے۔دیکھا جائے تو زندگی کے ہر شعبے میں انقلابی اصطلاحات کی ضرورت ہے اگر چہ اس دور میں عام آدمی ان اصطلاحات کو ایک فریب ہی سمجھتا ہے لیکن موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں یہ وقت کی ضرورت بھی ہے اور تقاضا بھی ۔جس طرح غریبی دور کرنے کے افسانے سنائے جاتے ہیں سماجی برائیوں کے خاتمے کی بات کی جاتی ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کے استحکام کیلئے غریبی دور کرنے کے نام پر دنیا کے غریب ممالک کو زبردستی سرمایہ دارنہ نظام کے سرکل میں داخل کیا جارہا ہے ۔سرمایہ دارانہ نظام انسانوںکو ایسے حال پر رکھتا ہے کہ دیکھنے میں وہ معزز انسان نظر آئے لیکن اندر سے وہ کھوکھلا ہو چنانچہ اس سلسلے میں وقتافوقتا غریبی دور کرنے کے اعلانات بھی ہوتے رہتے ہیں لیکن عملی اقدامت اٹھانے سے عموما گریز کیا جاتا ہے اور یہ اعلانات اپنی جگہ صحیح ہیں کہ غربت کی وجہ سے انسان کے جسم میں خون ہی نہ رہا تو اسے چوسا کس طرح جائیگا ؟ اس ظاہری طور پر غریبی دور کرنے کے اعلانات اور ہمارے سیاسی لیڈروں اور حکومتی اعلانات وغیرہ سب عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی حصہ معلوم ہوتاہے اور ایسی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں کہ عام آدمی اپنی معاشی ضروریات اور اخراجات پورا کرنے کیلئے وہ جانور وںکی طرح محنت کرتا ہے اور وہ خوشحالی کی چمک حاصل کرنے کیلئے اپنی زندگی کی انتہائی ئی قیمتی لمحات کچھ ایسے طریقے سے ضائع کرتا ہے کہ وہ سوچنے اور شعور حاصل کرنے کے لمحات کو کو بھی اپنے پاس نہیں پاتا ہے جس کے نتیجے میں میںاور بیوی کے درمیان بھی خلیج کا واقعہ ہونا کوئی انہونی نہیں ہے ۔کہاوت ہے کہ زندگی زندہ دلی کا نام ہے ، اس کہاوت کی صداقت سے انکار بھی نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ زندگی ایک بار ملتی ہے اس لئیے اس کا لطف اٹھانا چایئے اور کامیاب لوگ بھی وہ ہوتے ہیں جو بھر پور انداز میں ذندگی گزارنے کا ہنرجانتے ہیں جیسے ہمارے لیڈر حضرات اور خواتین جو سیاست میں ہیںجن کے پاس دولت بھی ہوتا ہے اور شہرت بھی ، ذندگی کی حرکت ان میں بھرپور نظر آتی ہے اور یہ ذہین اور فطین بھی ہوتے ہیں ان کا دماغ کمپیوٹر کی طرح کام کرتا ہے اور الیکشن کے دنوں میں ان کو عوام کی بھیڑ اچھی لگتی ہے یہ موقع شناس ہوتے ہیں اور اپنی زبان اور بیان سے عام آدمی کو اپنا گرویدہ بنالیتے ہیں اور معاملہ فہمی اور روشن دماغی کی وجہ سے وہ مشہور ہوتے ہیں اور عام آدمی بے چارہ تو ہمیشہ دھکے اور سرمایہ داروں کے مکے کھاتا ہے اور ووٹ کا حق استعمال کرتے ہیں اور ضرورت پڑ نے پر سرمایہ داروں کی کال پر سڑکوں پر نکلتے ہیں اور اس نشے میں بعض اوقات وہ خود کش بمبار کا نشانہ بن کر ان کے پرخچے بھی اٹھ جاتے ہیں ۔ سرمایہ داریت جسے کمرشلزم کا نام دیا جاتا ہے اس نے عام آدمی کیلئے خوش مزاجی اور زندہ دلی کو معدوم جنس بنادیا ہے ، بس اب تو نفسا نفسی ہے اورافراتفری ہے اور ہنگامہ خیزی ہے اور تیز رفتار زندگی کے دوڑ نے اکثریت کیلئے خوشدلی کو نایاب اور کمیاب بنادیا ہے اور سرمایہ دار کی قسمت میں کامیابی ہی کامیابی ہے۔چونکہ انسان فطری طور پر جدت پسند ہے اور وہ نئی نئی ایجادات کرتا ہے اور اختراعات کا عمل کرتا ہے اور جدید نظریات کی بنیاد رکھ کر زندگی کی گاڑی چلاتا ہے اور یہ بھی فطری تقاضا ہے کہ انسان امیر ہو یا غریب وہ کچھ رومانی طبیعت بھی رکھتا ہے اور صنف مخالف کیلئے محبت کے معاملے میں بھی وہ سیلانی طبیعت کے مالک ہوتا ہے اور بعض اوقات اس کے دل میں دوسری شادی کی خواہش بھی پیدا ہوتی ہے ، عام طور پر اس فطری خواہش کو پورا کرنے کیلئے وہ شادی بھی عموما جلدی کرلیتا ہے اور ذندگی کی گاڑی چلانا شروع کرلیتا ہے اور اگر کوئی اچھی سے بیوی صابر اور شاکر بیوی مل گئی تو پھر وارے نیارے ہیں ورنہ پھر بات وہی طلاق میلے تک پہنچ جاتی ہے اور شادی کا نتیجہ برعکس نکلتا ہے ۔اگر چہ یہ بھی حقیقت ہے کہ نئے دور کے تقاضوں کا انکار ممکن نہیں ہے اور تخلیقی صلاحیتوں کے اندر نکھار پیدا کر کے ترقی کے منازل کو طے کیا جاسکتا ہے لیکن دور حاضر میں سائنسی ترقی اور مادی ضروریات اور معاشی اور اقتصادیات کے نئے نئے ڈھنگ اور ذرائع ابلاغ کے تنوع کے ساتھ دنیا میں اب کافی تبدیلی آگئی ہے اور اس تبدیلی کے ساتھ انصاف اور عدل کے معیار بھی بدل گئے ہیں زندگی کی برق رفتاری نے انسان کو شارٹ کٹ راستہ اختیار کرنے پر مجبور کردیا ہے انسان مشینی دور میں مشین کی گراری کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور جو حقائق ہیں وہ بھت تلخ ہیں اقتصادی ترقی کی بجائے تباہ کاری کا گراف بلند ہوا ہے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو چھپانے سے چھپنے والا نہیں ہے ، انسانیت غربت کی چکی میں پس رہی ہے ،مہنگائی کا عفریت، ٹیکسوں کا جدید بظام ، غیرملکی سرمایہ کاری کے نام پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کا عمل دخل ،نجکاری کے نام پر قومی دولت کو ھڑپ کرنے کے منصوبے، برآمدات کو بڑھانے کے نام پر ملکی کرنسی کی قیمت کم کرنے کے اعلانات ،اور عالمی اداروں سے قرض لےکر ملک چلانے پر انحصار کب تک ہوتا رہیگا؟!۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے