کالم

غریب ٹیکس دے کر مالداروں کو پال رہے ہیں؟

ajaz-ahmed

فی الوقت 193 ممالک اقوام متحدہ کے ممبر ہیں۔ اور بد قسمتی سے پاکستان پہلا ملک ہے جنکے ہر دور کے حکمران اندرون اور بیرون ملک کہتے چلے آرہے ہیں کہ انکے عوام ٹیکس چور ہیں۔اگر ہم غور کریں تو سال 2010 میں پاکستانیوں نے ٹیکس کی مد میں 1500 ارب روپے قومی خزانے میں جمع کئے ۔ اسی طرح 13 سال بعد پاکستانیوں نے ٹیکسز میں اضافہ کیا اور یہ ٹیکس 2023 میں 9400 ارب روپے تک پہنچ گیا۔ اس سے ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ پاکستانی نہ تو ٹیکس چور ہیں اور نہ بد عنوان۔ بلکہ وقت کے ساتھ ٹیکس جمع ہونے میں اضافہ ہوا۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسئلہ کیا ہے اور پاکستانیوں کو کیوں ٹیکس چور کہا جاتا ہے۔اگر ہم حکومتی اخراجات پر نظر ڈالیں تو سال 2010 میں حکومتی اخراجات 2400 ارب روپے تھے اور سال 2023 میںبے تحاشا اضافے کے ساتھ یہ اخراجات11000 ارب روپے تک پہنچ گئے۔لہذااگر ہم ٹیکس جمع ہونے اور حکومتی اخراجات کا تقابلی جائزہ کرلیں تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کے غریب اور پسے ہوئے طبقات ٹھیک ٹھاک ٹیکس جمع کرتے ہیں مگر بد قسمتی سے حکومت کے اللے تللے اور بے لگام اخراجات قابو میں نہیں ۔اگر ہم غور کریں تو ان چیدہ چیدہ 37 ٹیکسوں میں انکم ٹیکس ، جنرل سیل ٹیکس،کیپٹل ویلیو ٹیکس،ویلیو ایڈڈ ٹیکس، سنٹرل سیلز ٹیکس،سروس ٹیکس، فیول ایڈجسٹمنٹ ٹیکس ،پٹرول لیوی،ایکسائز ڈیوٹی، کسٹم ڈیوٹی، آکٹرائے ٹیکس، ایمپلائنمنٹ ٹیکس،ٹی ڈی ایس ٹیکس ، پراپرٹی ٹیکس ، گورنمنٹ سٹیمپ ڈیوٹی, آبیانہ ٹیکس، عشر ، زکواة ، دھل ٹیکس، لوکل سیس، پی ٹی وی ٹیکس، پارکنگ فی، کیپٹل گین ٹیکس،واٹر ٹیکس، فلڈ ٹیکس، ڈیم کنسٹرکشن ٹیکس،فروفیشنل ٹیکس، روڈ ٹیکس، ٹال گیٹ فی،سیکیورٹی ٹرانزیکشن ٹیکس ، ایجوکیشن سیس، ویلتھ ٹیکس، ٹرانزینس اکوپینسی ٹیکس، ود ہولڈنگ ٹیکس، ایجوکیشن فی، ایس ای سی پی لیوی، بجلی ٹیکس اور اسکے علاوہ بے تحا شامزید ٹیکس بھی ہیں۔ابھی حال ہی میں حکومت نے آئی ایم ایف کے بہانے بجلی کے مد میںپاکستان کے غریب عوام پر 250ارب روپے اور سوئی گیس کے مد میں 350 ارب روپے کے ٹیکس لگائے اور اسی طرح آئی ایم ایف کے بہانے حکومت نے 170ارب روپے کے مزید ٹیکس لگائے۔ پاکستانی حکمران آئی ایم ایف کو ٹارگٹ کر رہے ہیں۔ مگر بات اسکے بر عکس ہے آئی ایم ایف پاکستان کو کہہ رہا ہے کہ حکومت اپنے اخراجات میں کمی کریں اور بجلی کے مد میں جو ایک ارب روپے ، ریلوے کے مد میں 16کروڑ روزانہ اور پی آئی جو سالانہ 70 ارب نقصان کررہے ہیں ہے اس پر قابو پایا جائے۔اگر ہم غورکریں تو ہمارا مسئلہ معاشی نہیں بلکہ سیاسی ہے۔ بنگلہ دیش اپنی جی ڈی پی کا 7 % ایران 7.4 % جبکہ اسکے بر عکس پاکستان اپنی جی ڈی پی کا 9.2%ٹیکس جمع کرتے ہیں مگر یہ انتہائی اور افسوس ناک بات ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو پھر بھی شکوہ ہے کہ پاکستانی عوام ٹیکس جمع نہیں کرتے۔ ایف بی آرجس کے انتظام پر اربوں روپے خرچ کیا جا رہا ہے مگر یہ انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ پاکستانی ایف بی آر کے بغیر بھی 90سے 95 فی صد انڈائریکٹ ٹیکس ، کسٹم ٹیکس اور ودہولڈنگ ٹیکس جمع کر رہا ہے ۔ اب بات یہ ہے کہ ایف بی آر پر اتنے اخراجات کیوں کئے جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں مالدار ٹیکس دیتے ہیں جو غریبوں پر خرچ کئے جاتے ہیں مگر وطن عزیز میں اسکا اُلٹ ہے یہاں پر غریب ٹیکس دیتے ہیں جو مالداروں پر خرچ کیا جاتا ہے۔کیا ریاست کے ذمے عوام کو روزگار، تعلیم، صحت اور تحفظ کے جو اقدامات شامل ہیںوہ انکو دے رہے ہیں؟۔عالمی بینک ، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور سابق دیگر کئی وزرائے اعظمان کے مطابق وطن عزیز میں 45 فی صد لوگ ، تقریباً 12 کروڑ عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ پی ٹی آئی کی ماضی قریب ، موجودہ اور سابق حکومتوں کی عوام دشمن پالیسیوں کی وجہ سے اس میں مزید اضا فہ ہوا۔ اور اس وقت پاکستانی بچوںکی مہنگی تعلیم، نا قابل بر داشت صحت ، روز گار کے بوجھ کے علاوہ ریاست ، ریاستی اداروں ، اشرافیہ، کا رخانہ داروں، جاگیر داروں، سول اور ملٹری بیروکریسی شامل کا انتہائی اذیت ناک بوجھ بھی اُٹھا رہے ہیں۔یہ بھی ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمارے حکمران پسے ہوئے عوام کے خون پسینے کی کمائی سے اپنے عیاشیوں میںمصروف ہیں۔ پاکستانیوں کو ہر دور اور ہر پا رٹی کے حکمرانوں پر کوئی اعتبار اور یقین نہیں۔ کیونکہ یہ حکمران غریب عوام اور ٹیکس دینے والے پسے ہوئے طبقات کے پیسوں پر پر تغیش زندگی گزار رہے ہیں۔ حکمران اس کو عوام کا امانت نہیں سمجھتے اور اس دولت کو منی لانڈرنگ کی شکل میں باہر ملکوں میں منتقل کرکے جائیدادیں بنا رہے ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے