آج کے موضوع کی جانب بڑھنے سے پہلے ایک وضاحت پہلے ضروری کردیتا ہوں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت کے متنازعہ پہلو کے بارے میں میرے شائع ہونیوالے گزشتہ کالم کے بارے میں برطانوی ہاؤس آف لارڈ کے رکن لارڈ قربان حسین نے میری توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ کالم میں یہ لکھنا کیوں بھول گیا کہ برطانیہ کی تیسری بڑی سیاسی جماعت لبرل ڈیموکریٹ پارٹی نے صدر ٹرمپ کے گزشتہ دورہ برطانیہ کے دوران انکی تمام تر سرگرمیوں کا بائیکاٹ کیا تھا جب کہ انکی پارٹی غزہ اور ٹرمپ کی پالیسیوں سے سخت اختلافات رکھتی ہے حتی کہ گزشتہ ماہ ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے شاہی دعوت یا ڈنر کو بھی لبرل ڈیموکریٹ پارٹی کے لیڈر ایڈ ڈیوی نے قبول نہیں کیا تھا اور انہوں نے ڈنر میں شرکت نہیں کی تھی۔ شرم الشیخ میں منعقد ہونے والی غزہ امن کانفرنس کے بارے میں جہاں بہت بڑے بڑے خدشات و تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے وہاں پوری کانفرنس کو ہی عالمی ڈونلڈ ٹرمپ شو قرار دیا جارہا ہے اس پر دنیا بھر کے میڈیا نے تنقید کی ہے جبکہ پاکستان کے وزیراعظم کو واحد لیڈر کے طور پر پیش کیا جارہا ہے جنہوں نے ٹرمپ کی بے حد تعریف کی ہے برطانوی اخبار دی گارڈین نے اپنی حالیہ اشاعت میں غزہ امن کانفرنس کے بارے میں ایک دلچسپ مگر طنزیہ رپورٹ شائع کی ہے، جس کا عنوان تھاI am the only one that matters: Trump deals praise and insults at Gaza summit( یعنی میں ہی واحد شخص ہوں جو اہم ہے غزہ اجلاس میں ٹرمپ کی تعریفیں اور طنز و تضحیک) گارڈین کے مطابق یہ اجلاس امن اور سفارتکاری سے زیادہ ایک سیاسی تماشا محسوس ہوا، جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے مخصوص انداز میں خود ستائشی، تعریف اور طنز کا ملا جلا مظاہرہ کیا۔ امریکی صدر تقریب میں دو گھنٹے تاخیر سے پہنچے اور روانگی سے قبل اسرائیلی پارلیمنٹ میں مذاق کرتے ہوئے کہا کہ انہیں خدشہ ہے انکے امیر مہمان میرے پہنچنے تک جا چکے ہوں گے اور اب صرف دو غریب ممالک باقی رہ جائیں گے۔ رپورٹ کے مطابق یہ جملہ ٹرمپ کے مزاج کی جھلک دکھاتا تھا ایک ایسا رہنما جو اپنی محفل میں مرکز بننے کا خواہاں ہوتا ہے۔ سب سے پہلے متحدہ عرب امارات کے نائب صدر شیخ منصور بن زاید النہیان اسٹیج پر آئے۔ ٹرمپ نے انکے خوبصورت جوتوں کی تعریف کرتے ہوئے فورا ًکہا: بہت سا پیسہ، نوٹوں کے انبار شیخ منصور نے مسکرا کر جواب دیا، مگر فضا میں ایک لمحے کیلئے عجیب سا ٹھہراؤ محسوس ہوا۔ اس کے بعد اٹلی کی وزیراعظم جورجیا میلونی کی باری آئی جو واحد خاتون رہنما تھیں۔ ٹرمپ نے ان سے کہا امریکہ میں اگر میں یہ کہوں تو میرا سیاسی کیریئر ختم ہو جائے گا، مگر میں خطرہ مول لیتا ہوں،تم واقعی بہت خوبصورت ہو۔ میلونی نے مسکرا کر جواب دیا، لیکن انکے چہرے پر جھجک صاف نمایاں تھی۔ترک صدر رجب طیب اردگان کے بارے میں ٹرمپ کے الفاظ سراسر تعریف پر مبنی تھے۔ ان کے بقول اردگان دنیا کے سب سے طاقتور لیڈروں میں سے ایک ہیں ان کی فوج بظاہر دکھائی دینے سے زیادہ طاقتور ہے۔ وہ سخت ہیں، مگر میرے دوست ہیں۔ نیٹو کو جب بھی ان سے کوئی مسئلہ ہوتا ہے، وہ مجھے فون کرتے ہیں، اور وہ مجھے کبھی مایوس نہیں کرتے ۔گارڈین کے مطابق، ٹرمپ کا انداز ایسا تھا جیسے وہ کسی تاریخی ہیرو کی تعریف کر رہے ہوں۔مصری صدر عبدالفتاح السیسی، جو اجلاس کے شریک میزبان تھے، جب ملاقات کیلئے بیٹھے تو ٹرمپ نے انکے بڑھائے ہوئے ہاتھ کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا یہ میرے دوست ہیں، ایک مضبوط صدر اور جنرل اور دونوں حیثیتوں میں بہترین ہیں پھر امریکی جرائم کی شرح پر طنز کرتے ہوئے کہا یہاں مصر میں جرائم کی شرح کم ہے، برخلاف امریکہ کے جہاں ہمارے گورنر نہیں جانتے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ مصر میں جرم کے معاملے میں نرمی نہیں برتی جاتی۔گارڈین کے مطابق، برطانوی وزیراعظم کے بارے میں ٹرمپ نے کہا کہ وہ بہت قابل اور سمجھدار ہیں، مگر تھوڑے بورنگ ہیں۔یہ جملہ سن کر برطانوی وفد کے چہروں پر وہی روایتی سفارتی مسکراہٹ پھیل گئی جس سے ناراضی کو چھپایا جاتا ہے۔رپورٹ میں پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کا ذکر خاص طور پر نمایاں ہے۔ اخبار کے مطابق، واحد شخص جو میزبان سے نمٹنے کا طریقہ جانتا ہوا نظر آیا، وہ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف تھے شہباز شریف نے ٹرمپ کی تعریفوں کے ایسے پل باندھے کہ ٹرمپ آگے بڑھ کر تقریر کا متن دیکھنے لگے، مگر شہبازشریف نے انہیں مؤدبانہ انداز میں پیچھے ہٹا دیا اور اپنی تقریر جاری رکھی۔ انہوں نے کہا بھارت اور پاکستان ایٹمی طاقتیں ہیں، اور اگر ٹرمپ اور ان کی شاندار ٹیم کی بروقت مداخلت نہ ہوتی، تو ایک تباہ کن جنگ چھڑ سکتی تھی۔ کون زندہ بچتا جو یہ داستان سناتا؟تاریخ نے ان کے نام کو سنہری حروف میں امر کر دیا ہے۔ خدا آپکو برکت دے سلامت رکھے اور طویل عمر عطا کرے تاکہ آپ اپنی قوم کی اسی جذبے سے خدمت جاری رکھ سکیں گارڈین کے مطابق، اس دوران ٹرمپ نے بار بار مسکراتے ہوئے شہباز شریف کی پیٹھ تھپتھپائی اور خود کو دنیا کا اصل امن کا سفیر قرار دیا۔رپورٹ کے اختتام پر اخبار لکھتا ہے کہ تمام عالمی رہنماؤں میں صرف ایک ایسا شخص تھا جو شاید سکون کا سانس لے رہا تھا ۔ایرانی صدر مسعود پزشکین جنہوں نے اپنی عزتِ نفس کی حفاظت کے لیے اس اجلاس میں شرکت سے ہی انکار کر دیا۔گارڈین نے طنزیہ انداز میں نتیجہ اخذ کیا کہ مصر میں ہونے والا یہ اجلاس امن کے کسی بامعنی فیصلے تک نہیں پہنچ سکا، مگر ٹرمپ کے انداز، جملہ بازی اور خود ستائشی نے اسے مکمل طور پر ایک ٹرمپ شو میں تبدیل کر دیا۔ رپورٹ کا آخری جملہ سب کچھ واضح کر دیتا ہے۔”دنیا کے رہنما شاید امن کے لیے جمع ہوئے تھے، مگر سب سے زیادہ مطمئن صرف ایک شخص نظر آیا ڈونلڈ جے ٹرمپ، کیونکہ ان کے نزدیک وہی واحد شخص ہیں جو واقعی اہم ہے۔شرم الشیخ میں منعقد ہونے والی غزہ امن کانفرنس کے بارے میں بی بی سی پر حنیف خان کا کالم بھی دلچسپ اور بھرپور ہے ۔انکے نزدیک مرکزی نکتہ یہ ہے کہ مصر میں ہونے والی عالمی امن کانفرنس دراصل ایک سیاسی تھیٹر بن گئی جہاں ہر رہنما نے اپنی اپنی اداکاری دکھائی، مگر سب سے نمایاں کردار شہباز شریف نے ادا کیا۔مصنف کے مطابق، شہباز شریف پورے اعتماد سے مائیک پر آئے اور اپنے مخصوص جوش و جذبے سے صدر ٹرمپ کی تعریفوں کے پل باندھ دیئے ۔ان کی تقریر کچھ یوں تھی جیسے وہ کسی محبوب کو راضی کر رہے ہوں جذبات، تعریف اور عقیدت سے لبریز۔انہوں نے ٹرمپ کو عالمی مسیحا قرار دیا، کہا کہ اگر ان کی مداخلت نہ ہوتی تو بھارت اور پاکستان دونوں ایٹمی طاقتوں کے درمیان ایک تباہ کن جنگ چھڑ جاتی۔مصنف طنزا ًلکھتے ہیں کہ شہباز شریف غالب سے بھی بڑھ گئے ہیں کیونکہ انہوں نے ٹرمپ کی ابدی رہنمائی اور ہمیشہ سلامت رہنے کی دعا بھی مانگ لی۔مصنف نے مزاحیہ پیرائے میں لکھا کہ ٹرمپ اتنے خوش ہوئے کہ شاید وہ شہباز شریف کو اپنے ساتھ وائٹ ہاؤس لے جانا چاہتے تھے تاکہ انکی باتیں خاتونِ اول کو بھی سنوا سکیں۔آخر میں حنیف خان نے یہ طنز بھی کیا کہ شہباز شریف آخرکار گھر واپس آ گئے، کیونکہ ٹرمپ کے فیورٹ فیلڈ مارشل تو پہلے ہی گھر بیٹھے تھے۔یہ کالم ایک شاندار طنزیہ تحریر ہے جو بین الاقوامی سفارتکاری کی مصنوعی چمک دمک اور پاکستانی قیادت کے اندازِ بیان دونوں پر ہلکے پھلکے مگر گہرے طنز کے ساتھ روشنی ڈالتی ہے۔حنیف خان نے مزاح کے پیرائے میں یہ دکھایا ہے کہ عالمی فورمز پر تعریف و توصیف کی سیاست اکثر سنجیدہ موضوعات کو بھی ڈرامہ بنا دیتی ہے۔