کالم

غزہ کی جنگ میں اسرائیلی تباہی

riaz chu

غزہ میں اسرائیلی بربریت اور دہشت گردی کے بعد خود اس کے خلاف دنیا بھر میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔ تمام ممالک اسرائیل سے تعلقات پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔ گو کہ حکومتی سطح پر یورپ، عرب اور دیگر ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ہیں مگر عوامی جذبات کے آگے یہ ممالک بے بس ہو رہے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور دنیا کے دیگر ممالک میں موجود یہودیوں نے بھی فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کیے ہیں جس سے اسرائیل پر اخلاقی طوپر بہت دباو¿ پڑا ہے۔ اسرائیل کے سفیروں کو کچھ ملکوں سے بھگا دیا گیا ۔ جن ممالک نے اسرائیل کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا وہاں کی حکومتیں اپنے عوام کے سامنے شرمندہ ہوئیں کیونکہ عوام نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو مسترد کر دیا تھا۔ خود اسرائیلی وزیر اعظم کو اس کی عوام کی نظروں میں دو کوڑی کا بنا دیا ۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں سڑکوں پہ مظاہرین نکل آئے جو یہودیوں اور ان کے حواریوں سے نفرت کرتے ہیں۔ دنیا کے مختلف ملکوں کی پارلیمینٹ تک میں ان کی آواز میں آواز ملائی جانے لگی۔ابتک امریکی و برطانوی اور یورپی امداد کی وجہ سے اسرائیل جنگی طاقت میں چوتھے نمبر پہ تھا مگر غزہ کی جنگ میں اس کا بے پناہ حربی نقصان ہوا جس کی وجہ سے اب اسکا چوتھے نمبر والا مقام جاتا رہا ۔ اخبارات سے پتہ چلا کہ حماس نے کم و بیش 300 فوجیوں کو یرغمال بنا لیا جس میں کچھ تو میجر اور جنرل بھی ہیں جبکہ 150 کے قریب شہریوں کو بھی قید کیا جو حکومت میں اونچے عہدوں پہ ہیں ۔حماس نے صرف فوجی ہی قیدی نہیںبنائے بلکہ اسرائیلی اسلحے پر بھی قبضہ کیا ہے۔ چار فوجی چھاو¿نیوں سے ایسے اسلحے کا ذخیرہ سمیٹا جو کاندھے پہ اٹھائے جا سکتے ہیں ۔ 160 سے زیادہ ٹینکوں کو بھسم کیا ۔ موساد کے مختلف ٹھکانوں کو تباہ کرکے انکے لیپ ٹاپ پہ قبضہ کیا جن میں غزہ یا میڈل ایسٹ میں اسرائیلی جاسوسوں کے پتے درج ہیں ۔ فوجیوں اور پولیس کے چھوٹے راڈاروں اور درجنوں وائر لیس پہ قبضہ جمالیا جو غزہ سے چالیس کلومیٹر کے دائرے میں میں ایکٹیو تھے ۔ 1500 راکٹ داغے جن سے دشمن کا بھاری جانی اور مالی نقصان ہوا عسقلان اور اس کے قرب و جوار سے 5 لاکھ اسرائیلیوں کو گھر بار چھوڑ کے رفیوجی بننے پہ مجبور کردیا۔ 2500 اسرائیلیوں کو جہنم واصل کیا ۔اسرائیل کا سب سے بڑا نقصان اس کے محفوظ سیکورٹی سسٹم کی ناکامی کی صورت میں ہوا۔ اسرائیل کو اپنے سیکورٹی سسٹم پر بڑا غرور تھا کہ اس کی موجودگی میں کوئی پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔ دنیا کے سات بڑے ملکوں کی انٹیلی جینس کو فیل کرکے اپنے حدف کو انجام دیا جس سے ان کی ناک کٹ گئی۔فلسطین کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ عالمی سطح پر فلسطین کا مسئلہ مکمل طور پرزندہ ہوگیا۔ اقوام متحدہ و دیگر فورمز پر فلسطینیوں کے حقوق کی بات ہونے لگی۔ اسرائیلی مظالم کو رد کیا جانے لگا۔ اسرائیل پر جنگی جرائم کا الزام عائد ہوا۔ تمام عالم اسلام کے جوانوں میں شہادت سے محبت پیدا کردی اور قبلہ اول پہ مرمٹنے کا جذبہ بیدار کردیا ۔ قذافی۔ مرسی۔ صدام وغیرہ کو کس لئے قتل کروایا گیا تھا اس پہ پھر سے بحث چھڑ گئی اور لوگ صاف صاف کہنے لگے کہ ان کے قتل سے عالم اسلام کا کیا نقصان ہوا اور کن کی ملی بگت سے ہوئے۔ مسلکی اختلافات میں واضع کمی آ گئی ہے۔ محبت اقصیٰ جاگ اٹھی۔ شب معراج نبی کریم ﷺ نے جس مقام پہ انبیاءکی امامت کی اس مقام کی کس کے دل میں کتنی اہمیت ہے تڑپ ہے محبت ہے سب پر آشکار کردی۔مقبوضہ فلسطین کے علاقے غزہ میں جنگ کے اسرائیل کی معیشت پر برے اثرات پڑنے لگے۔ اسرائیلی ماہرین معیشت کے مطابق اسرائیل کا جنگی نقصان 17 ارب ڈالرز تک پہنچ گیا جبکہ معاشی ماہرین نے اسرائیلی ریاست کے نقصان کا تخمینہ7 ارب ڈالر سے زیادہ کا لگایا ہے۔ اسرائیل میں رواں سال خسارہ جی ڈی پی کے 3 فیصد تک پہنچ جائے گا، غزہ جنگ سے پہلے خسارہ جی ڈی پی کے1.5 فیصد تک متوقع تھا۔اسرائیلی ماہرین کے مطابق خسارے ختم کرنے کےلیے درکار رقم سال کے آخری 2 ماہ میں12.5ارب ڈالرتک پہنچ سکتی ہے، یہ اندازے بینک آف اسرائیل اور وزارت خزانہ کے غیرسرکاری تخمینوں سے زیادہ ہیں۔عالمی بینک بھی غزہ جنگ کے دنیا کی معیشت پر سنگین اثرات مرتب ہونے سے خبردار کرچکا ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق اسرائیل کی 500 ارب ڈالر کی معیشت مشرق وسطیٰ کی بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے۔ غزہ میں اسرائیل کی جنگ اسرائیلی معیشت کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہی ہے۔ فلسطینی زمینوں پہ قبضہ کرکے جتنے گاو¿ں بسائے گئے ہیں اب ایک بھی اسرائیلی رات کو چین سے نہیں سو سکتا کہ نہ جانے کب یہ لوگ کس سوراخ سے نکل کے ہمیں ختم کردیں یہ خوف رواں حملے سے پیدا ہوا۔ چند عمر دراز بندھکوں کو رہا کر کے دنیا کو بتا دیا کہ وہ وہ نہیں جو مغربی میڈیا انہیں بتارہا ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے