ضرر رساں گیسوں کے اخراج اور انکے نتیجے میں درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے دنیا کے غریب ممالک دولت مند حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کو ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کےلئے امیر ممالک کی جانب سے فنڈز میں اضافی کی ضرورت ہے۔ اگر امریکہ کے پاس یو کرین جنگ کےلئے فنڈز ہیں لیکن ما حولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے میں وہ سستی دکھا رہے ہیں۔ غریب ممالک کو ماحول دوست توانائی تک رسائی کو مشکل بنایا جاتا ہے۔اگر ہم تجزیہ کریں تو امریکہ پوری دنیا کا 20 فیصد تیل استعمال کر رہا ہے ۔ چین دنیا کا 14 فیصد ، بھارت اور جاپان 5 فیصد تیل، ٹرانسپورٹ اور صنعتی ترقی میں استعمال کر رہا ہے۔ جسکے جلنے اور استعمال سے زہریلا گیس کا ربن ڈائی آکسائیڈ ان گلیشیر کے پگھلنے طوفانوں ،با رشوں اور سیلاب کی شکل میں تباہی اور بر بادی کا سبب بنتے ہیں۔ پاکستان دنیا کا 0.5فیصد تیل استعمال کر رہاہے جو نہ جلنے کے برابر ہے ۔اگر تجزیہ کیا جائے تو سیلاب اور حد سے زیادہ بارشوں کے کئی وجوہات ہوسکتے ہیں۔ ان میں تیل ، گیس اور کوئلے کا ٹرانسپورٹ اور صنعتوںمیں استعمال اور اسکے نتیجے میں زہریلے گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج اور اخراج کی صورت میں گلیشیر کا پگھل جانا اورنتیجے میں سیلابوں اور حد سے زیادہ نقصانی با رشوں کا برسنا شامل ہے ۔ اگر ہم تجزیہ کریں تو اس وقت پاکستان میں، دنیا کے185 ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ یعنی 7253 گلیشیر اور بر ف کے بڑے تو دے ہیں ۔ گلیشیر کے ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر گاڑیوں اور صنعتی ترقی کی وجہ سے گیسوں کے اخراج اور زیادہ درجہ حرارت کے نتیجے میں کوہ ہمالیہ کے 40 فیصد گلیشیر ز پگھل کر دریائی پانی کی شکل میں ضائع ہو چکے ہیںاور بد قسمتی سے ان گلیشیئرز میں 85 فیصد سال 2000 سے 2020 تک ختم ہو چکے ہیں۔ علاوہ ازیں جنگلات کا بڑے پیمانے پرکٹاﺅ ، سیلابی اور با رشی پانی کے راہ اوربہاﺅ کے راستوں میں رہائشی علاقوں کی تعمیر اور اسکے علاوہ دیگر اور بھی بہت وجوہات ہیں۔ مگر ان سب میں زیادہ خطرناک ٹرانسپورٹ کے گاڑیوں اور صنعتوں میںتیل کا استعمال ہے جسکے نتیجے میں کا ربن ڈائی آکسائیڈ کا ا خراج ہے ۔ وطن عزیز میں حالیہ سیلابوں اور با رشوں کی وجہ سے 30 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ بدقسمتی سے1500 کے قریب قیمتی جانیں ضا ئع ہوئیں اور غریب کسانو ں کی 15 لاکھ جانور لقمہ اجل بن گئے۔ اس وقت پاکستان میں تقریباً 4 فیصد رقبے پر جنگلات ہیںجو بہت کم ہیں ۔ یہ جنگلات پاکستان کے کم ازکم 20 فیصد رقبے پر ہونا چاہئے تاکہ ما حول میں گاڑیوں اور صنعتی ترقی کی وجہ سے پیدا شدہ کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس ، گلیشیر سُکڑنے اور اسکے نتیجے میں پیدا شدہ بے تحاشا با ر شوں اور سیلاب پر قابو پایا جائے۔ ماہرین کے مطابق ایک مکمل درخت سال میں 24 کلوگرام کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتا ہے اور اتنی مقدار میں آکسیجن کو چھوڑتا ہے جو ماحول کو خوشگوار بنانے میں کلیدی کر دار اداکرتا ہے ۔ جس سے گلیشیر کے پگھلنے کے رفتار سست ہو کرسیلاب اور بارش کی تباہ کاری کم کرنے میں حد سے زیادہ مدد مل سکتی ہے۔ اگر ترقی یافتہ ممالک تیل کو کم سے کم استعمال کریںاور سا تھ متبادل ذرائع توانائی استعمال کریں تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ سیلاب اور انکی تباہ کاریوں پر قابونہ پایا جا سکے۔ ساتھ ساتھ اگر ترقی پذیر ممالک جنگلات کا رقبہ بڑھائیں تو پھر اس قسم کے آفات پر آسانی سے قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس وقت وطن عزیز میں سورج سے لاکھوں میگا واٹ بجلی ، ہوا سے 50ہزار میگا واٹ اور پانی سے ایک لاکھ میگا واٹ ما حول دوست بجلی بنائی جا سکتی ہے ۔ خوش قسمتی سے پاکستان عالمی سطح پر سورج کی بہترین روشنی کے لحا ظ سے تیسرا بڑا ملک ہے ۔ دراصل بات یہ ہے کہ موجودہ اور ماضی قریب میں اس قسم کے قدرتی آفات پاکستان میں ترقی یافتہ ممالک کی گاڑیوں میں تیل جلنے اور صنعتی کی وجہ سے ہورہا ہے اور ہم انکے ٹیکنالوجی کی ترقی کو تیل اور گیس کے استعمال کو قدرتی آفات کی شکل میں بھگت رہے ہیں ۔ اس وقت جب پاکستان انتہائی ناگفتہ بہہ حالات کا سامنا کر رہے ہے امریکہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک پاکستان کو زیادہ سے زیادہ امداد دیں۔ پاکستان کے اعلیٰ حکام سے بھی درخواست ہے کہ وہ کہ وہ اس تباہی سے تدارک کےلئے ٹھوس حکمت عملی بنائیں اور جن جن لوگوں نے دریاﺅں یا پانی کے بہاﺅ کے راستوں میں رہائشی پلا ٹس، پلازے اور ہو ٹل بنائیں ہیں انکے خلاف سخت سے سخت بھر پور اقدمات ہونے چاہئے کیونکہ ان آفات کے نقصانات میںقدرت سے زیادہ انسانوں کی بد انتظامی اور غلط منصوبہ بندی شامل ہے ۔