کالم

فوری مذاکرات کے بعد فوری انتخابات

riaz chu

موجودہ حالات میںمذاکرات واحد راستہ ہے جسے اختیار کر کے بہتری آ سکتی ہے۔ ڈائیلاگ کی ضرورت جتنی آج ہے پہلے نہ تھی۔ اسی تناظر میں امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق نے کہا ہے کہ اگر پاکستان کو شام اور سوڈان نہیں بنانا تو الیکشن کی طرف جانا ہو گا۔ پی ٹی آئی،پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی کی ذاتی مفادات کی سیاست نے ملک کو بستر مرگ تک پہنچا دیا۔جان بوجھ کر خانہ جنگی کسی صورت حال پیدا کی جا رہی ہے۔ یاد رہے حالات مزید خراب ہوئے اور سنجیدگی نہ اپنائی گئی تو ملک کی ایٹمی صلاحیت کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔
جماعت اسلامی نے قومی انتخابات کےلئے روڈ میپ دیا ہے۔ تمام سیاسی سٹیک ہولڈر سے اپیل کرتے ہیں کہ الیکشن کی تاریخ پر اتفاق رائے پیدا کریں اور عوام کو فیصلے کا اختیار دیں۔ جلسے جلوس ہر پارٹی کا آئینی اور قانونی حق ہے، لیکن قیادت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ پرامن احتجاج کو یقینی بنائے۔ اگر حکومت خود ہی جلسے جلوسوں کا راستہ اختیارکرے گی تو عوامی مسائل اور مشکلات پر کون توجہ دے گا؟۔ سیاسی محاذ آرائی سے معیشت تباہ ہو گئی۔ ہوائی اڈوں سمیت دیگر قومی اثاثوں کی پرائیوٹائزیشن اور فروخت کے آپشن زیرغور ہیں۔ گندم کی بین الصوبائی ٹرانسپورٹ پر پابندی ختم کی جائے۔ پنجاب سے خیبر پی کے بھیجی جانے والی گندم کو روکا جا رہا ہے جہاں آٹے کی قلت ہے۔
امیر جماعت اسلامی نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ الیکشن کی طرف جانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ فیصلے پارلیمان اور عدالتوں میں نہیں تو کیا بیرکوں میں ہوتے ہیں؟ ملک کی حالت سدھارنے کے لیے الیکشن کی طرف جانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ سیاسی جماعتوں نے اپنی روش نہ بدلی تو عوام ان کا احتساب کریں گے جبکہ آئینی، سیاسی و معاشی بحران کے براہ راست متاثرین عوام ہیں۔ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں لیکن وی آئی پی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سیاسی اسٹیک ہولڈر کی حیثیت سے جماعت اسلامی قومی انتخابات چاہتی ہے اور جماعت اسلامی کی الیکشن میں جانے کے لیے مکمل تیاری ہے۔
وطن عزیز کو سیاسی بحران سے نکالنے کےلئے سب کو مل بیٹھنے کی ضرورت ہے ۔ سیاسی معاملات کے حل کےلئے ”آئینی تقاضے“ ہر صورت مقدم رکھنے سے مثبت نتائج کا حصول ممکن بنایا جاسکتا ہے ۔ ملک آج سیاسی اور معاشی حوالوں سے جس سنگین حالات کا شکار ہے ،ماضی میں اسکی کوئی مثال نہیں ملتی۔”سیاسی اختلافات“ کی آڑ میں ایک دوسرے کا احترام اور اخلاقیات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے اور سیاسی معاملات کو ”نوریٹرن پوائنٹ “ پر لے جانے سے گریز کرنا چاہیے۔
تازہ ترین حالات نے پاکستان کی سیاست کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں کیا ہو سکتا ہے۔پاکستان کی معیشت، سیاست اور امن و امان کی صورتحال خراب ہے۔ اس وقت صرف ایک بات کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ بحران مزید بڑھے گا۔ یہ جتنا گہرا ہو گا، اتنا ہی انتشار ہو گا، اتنی ہی بدامنی ہو گی۔ حکومت، عدلیہ اور تحریک انصاف کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ قرض کے حصول کے لیے ہونے والے مذاکرات کو پٹڑی سے اتار سکتی ہے، جس سے سیاسی صورتحال مزید ابتر ہو گی۔
ملکی مسائل کے حل اور درپیش چیلنجز سے نمٹنے کےلئے باہمی مشاورت سے مشترکہ حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔فوری طور پر قومی سطح کا ڈائیلاگ شروع کیا جائے ۔حکمران مہنگائی اور بے روز گاری پر قابو پانے کے لیے اقدامات اٹھائیں۔ سیاستدان باہمی کھینچا تانی کی بجائے ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے چارٹر آف اکانومی کریں اور مہنگائی کی چکی میں پسے ہوئے عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کام کریں ۔اس وقت تما م بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما اقتدار کے حصول کے لیے ملک کو مزید بحرانوں کی نذر کر ر ہے ہیں جس کی وجہ سے مہنگائی اور بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے غریب عوام کے لیے دو وقت کی روٹی پوری کر نا مسئلہ بن گیا ہے۔سیاسی قیادت نے اگر ہوش کے ناخن نہ لیے تو خدانخواستہ ملک ایسے بحران میں پھنس جائے گا جس سے نکلنے کے لیے راستہ نہیں ملے گا ۔تمام سیاسی فریقین کو چاہیئے کہ وہ مل بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کریں اور ملک میں فوری طور پر قومی ڈائیلاگ کا آغاز کیا جائے یہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے ملکی مسائل سے نمٹا جا سکتا ہے۔
منصفانہ انتخابات کے سلسلے میں الیکشن کمیشن کا مالی وانتظامی لحاظ سے خودمختار ہونا وقت کی ضرورت ہے۔ فوج کی جانب سے آئندہ مارشل لاءنہ لگانے کے اعلان سے شکوک وشبہات ختم ہوگئے۔ہم چاہتے ہیں عدلیہ، الیکشن کمیشن اور سٹیبلشمنٹ مکمل طور نیوٹرل ہوجائے۔اس وقت حالات یہ ہیں کہ ملک میں سیاسی اختلافات دشمنیوں میں بدل گئے۔ انتقام کے نعرے ملک کے لیے تباہ کن ہیں اور پولرائزیشن خطرناک حدیں چھو رہی ہے۔ اب نئی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ قوم میں اتفاق پیدا کرنے کے لیے کردار ادا کرے۔ سیاست گالم گلوچ کا نہیں، دلیل سے بات کرنے کا نام ہے۔
جہاں تک اداروں کی حرمت کا سوال ہے تو کسی بھی فرد، ادارے یا گروہ کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ ریاست کے خلاف اٹھ کر کھڑا ہو جائے اور ریاست اور اس کے اداروں کو کمزور کرنے یا نقصان پہنچانے کے لیے ایسے اقدامات کرے جنھیں بغاوت کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri