کالم

فچ رپورٹ ، سیاسی مداخلت

فچ رپورٹ ، سیاسی مداخلت

تحریر !ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
دنیا میں تین بڑی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں میں موڈیز، اسٹینڈرڈ اینڈ پور (S&P) اور فچ انٹرنیشنل شامل ہیں۔ یہ ایجنسیاں ممالک کی کنٹری رسک رپورٹ اور معاشی درجہ بندی مرتب کرتی ہیں جو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کو قرضہ دینے میں مدد دیتی ہے۔ ان ایجنسیوں کی اچھی درجہ بندی سے سرمایہ کاروں کا کیپٹل مارکیٹ اور بانڈز پر اعتماد بحال ہوتا ہے۔ عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کا معاشی درجہ بندی کیلئے ایک میکنزم ہوتا ہے لیکن پہلی بار امریکی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی فچ انٹرنیشنل نے اپنی کنٹری رسک رپورٹ میں پاکستان کی سیاسی صورتحال کو بھی مدنظر رکھا ہے اور کہا ہے کہ عمران خان کے جیل سے باہر آنے کا فی الحال کوئی امکان نہیں، مسلم لیگ (ن)کی حکومت 18 ماہ برسراقتدار رہے گی اور آئی ایم ایف کے معاشی اصلاحات کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہوگی لیکن اگر کسی وجہ سے موجودہ حکومت چلی جاتی ہے تو متبادل کے طور پر نئے انتخابات کے بجائے فوج کی حمایت یافتہ ٹیکنو کریٹ حکومت بننے کا زیادہ امکان ہے مگر آئین میں ایسی کسی حکومت کی گنجائش نہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال اور سیاسی عدم استحکام ملک کو ڈی ریل کرسکتا ہے۔ فچ انٹرنیشنل نے پیش گوئی کی ہے کہ موجودہ سال کے اختتام تک روپے کے مقابلے میں ڈالر 290 روپے اور 2025 میں 310 روپے تک جاسکتا ہے۔ حال ہی میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہتر کرنے کیلئے فچ کو ملک کی معاشی، سیاسی صورتحال اور آئی ایم ایف سے ہونے والے معاہدے پر ایک بریفنگ بھی دی ہے۔عالمی ادارے کی حالیہ رپورٹ کے بعد یہ سوالات کئے جارہے ہیں کہ کیا کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی اپنی رپورٹ میں معاشی درجہ بندی کے علاوہ سیاسی معاملات بھی شامل کرسکتی ہے؟ میرے نزدیک ایک ذمہ دار کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی کو سیاسی حالات کے بارے میں پیش گوئی نہیں کرنی چاہئے کیونکہ ایسی پیش گوئیوں سے عالمی مالیاتی اداروں کا اعتماد کمزور ہوتا ہے۔ میرے ذرائع کے مطابق مذکورہ رپورٹ دراصل فچ انٹرنیشنل کی نہیں بلکہ اس کے ذیلی ادارے فچ سلوشنز BMI کی ہے جس کی کوئی خاص اہمیت نہیں اور یہ ایک پروپیگنڈا ہے لیکن پاکستان کے میڈیا نے اسے فچ کی رپورٹ کے طور پر پیش کیا۔ فچ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت بجٹ اور ٹیکس اہداف کا حصول مشکل نظر آتا ہے لیکن مالی خسارہ 7.4 سے کم ہوکر 6.7 فیصد پر آنے کی توقع ہے۔ فچ نے اپنی رپورٹ میں رواں مالی سال پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ 3.2 فیصد کی پیش گوئی کی ہے جو گزشتہ سال 2.4 تھی۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے تجارتی خسارہ جی ڈی پی کے 7.7 فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔فچ انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ سے پہلے عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستان کو بیرونی ادائیگیوں میں مشکلات کا سامنا ہے لیکن آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری سے پاکستان کو بیرونی فنانسنگ کی ضروریات پوری کرنے میں مدد ملے گی۔ موڈیز نے پاکستان کی ریٹنگ مستحکم (CAA) جبکہ اسٹینڈرڈ اینڈ پور (S&P) نے کریڈٹ ریٹنگ CCC+ قرار دی ہے جس کو اپ گریڈ کرکے B کردیا گیا ہے جس کی رو سے پاکستان اپنے بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کی صلاحیت رکھتا ہے۔ موڈیز کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان کے آئندہ 3 سے 5 سال میںبیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کی صورتحال انتہائی نازک رہے گی۔ موڈیز کے مطابق آئی ایم ایف کی شرائط میں ٹیکس نیٹ کو پھیلانا، زراعت، ایکسپورٹ، ریٹیل اور رئیل اسٹیٹ کے شعبوں کو فکس ٹیکس نظام سے نکال کر نارمل ٹیکس نظام میں لانا، تمام استثنی کو ختم کرنا اور توانائی کے شعبے میں نقصانات روکنے کیلئے انرجی ٹیرف کو بروقت بڑھانا شامل ہے۔ موڈیز کے مطابق اضافی ٹیکسز اور مہنگی توانائی کے باعث عوام میں سماجی تنائو بڑھے گا جو موجودہ کمزور اتحادی حکومت کیلئے اصلاحات پر عملدرآمد میں مشکلات پیدا کرے گا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کو بیرونی ادائیگیوں کیلئے رواں مالی سال 21 ارب ڈالر اور آئندہ مالی سال 23 ارب ڈالر درکار ہیں لیکن پاکستان بیرونی فنانسنگ کو پورا کرنے کی صلاحیت میں کمزور ہے اور زرمبادلہ کے محدود ذخائر رکھنے کی وجہ سے ڈیفالٹ کرسکتا ہے۔ پاکستان کو آئی ایم ایف کو اپنی مالیاتی یقین دہانیوں کیلئے چین کے قرضوں کو ری شیڈول کرانا ہوگا جو مجموعی قرضوں کا تقریبا 30 فیصد ہیں۔ چین کے قرضوں کی ری شیڈولنگ کیلئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب چین کے دورے پر ہیں۔ چین کے قرضوں کے علاوہ پاکستان کے بیرونی قرضوں میں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور پیرس کلب کے قرضے بھی شامل ہیں۔ ان تمام چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے ملک میں سیاسی استحکام اشد ضروری ہے۔ فچ کی رپورٹ میں معاشی بحالی کیلئے سب سے بڑا خطرہ فروری میں الیکشن کے بعد سے اب تک مسلسل سیاسی عدم استحکام ہے جو ملکی معیشت کو متاثر کررہا ہے اور ملک میں سیاسی بے یقینی کا بڑا سبب ہے۔ ملک میں غیر یقینی سیاسی صورتحال کی وجہ سے معاشی عدم استحکام بڑھ رہا ہے جس کا پاکستان کسی صورت متحمل نہیں ہوسکتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے