خاص خبریں

فیض آباد دھرنا: کمیشن اگر کسی کو بلائے وہ نہ گیا تو گرفتار بھی کروایا جاسکتا ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

ٹرائل 2 سال تک مکمل نہ ہو تو ملزم ضمانت کا حق دار ہے، سپریم کورٹ

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے واضح کیا کہ کمیشن اگر کسی کو بلائے وہ نہ گیا تو گرفتار بھی کروایا جاسکتا ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی جس میں جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔سماعت شروع ہونے سے قبل وفاقی حکومت نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے کمیشن تشکیل دیا جس کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔ شیخ رشید کی نظرثانی درخواست واپس لینے پر سپریم کورٹ نے خارج کر دی۔چیف جسٹس نے شیخ رشید سے استفسار کیا کہ آپ نے نظرثانی کی درخواست دائر ہی کیوں کی تھی، نظرثانی دائر کر کے چار سال لٹکائے رکھا۔ یہ نہیں ہوگا کہ اوپر سے حکم آیا ہے تو نظرثانی دائر کر دی۔وکیل شیخ رشید نے کہا کہ مجھے کسی نے نہیں کہا تھا، وکیل کے مشورے سے نظرثانی دائر کی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کو لگتا ہے ماضی میں اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا جاتا رہا، 100 سال بعد بھی یہ سچ نہیں بولا جائے گا کہ نظرثای درخواستیں کس نے دائر کروائیں۔ ملک میں نفرتیں پھیلانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے، اپنے ملک کے سب سے بڑے دشمن خود ہیں۔ کوئی سڑکیں بند کر کے جلاؤ گھیراؤ کرکے ملک کے ساتھ مخلص نہیں ہے۔دوران سماعت شیخ رشید نے بولنے کی کوشش کی، چیف جسٹس نے شیخ رشید کو بولنے سے روک دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے وکیل سے بات کر رہے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو ایم این اے رہ چکے اور وزیر رہ چکے وہ تو ذمہ دار ہیں نا، جلاؤ گھیراؤ کا کہتے ہیں تو اس پر کھڑے بھی رہیں نا، کہیں نا کہ ہاں میں نے حمایت کی تھی، دوبارہ موقع ملے تو کیا پھر ملک کی خدمت کریں گے؟جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ شیخ رشید ایک سینیئر پارلیمنٹرین ہیں، آپ کے حوالے سے عدالت نے کچھ نہیں کہا۔اٹارنی جنرل نے نوٹیفیکیشن عدالت میں پیش کرتے ہوئے انکوائری کمیشن کے ٹی او آر پڑھ کر سنائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ وزارت دفاع میں سے کسی کو کمیشن میں کیوں شامل نہیں کیا گیا۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تمام صوبائی حکومتیں اور وفاقی حکومت اس کمیشن سے تعاون کرنے کی پابند ہیں۔ ابصار عالم نے کہا کہ میں اسی امید پر انتظار کروں گا۔چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ساڑھے چار سال گزر گئے ساٹھ دنوں میں دیکھ لیتے ہیں، حاضر سروس بارے یہ خدشہ ہوتا ہے کہ اس کی سروس متاثر ہوسکتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے