کالم

قائداعظم اور شاعر مشرق کیسا پاکستان چاہتے تھے ;

وطن عزیز کے قیام کے اغراض ومقاصد بارے سوچ وبچار میں یہ سوال کیلدی اہمیت کا حامل ہے کہ مملکت خداداد کے بانیاں نے اس کی بنیاد کن تصورات اور نظریات پر رکھی، ہم یہ جانتے ہیں کہ تقسیم ہند میں جن دو شخصیات نے کلیدی کردار ادا کیا ان میں ایک قائد اعظم محمد علی جناح جبکہ دوسرے علامہ محمد اقبال تھے، یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان میں قائد اعظم بانی پاکستان کے منصب پر فائز ہیں جبکہ علامہ اقبال ہمارے قومی شاعر ومفکر کہلاتے ہیں، تحریک پاکستان کا مطالعہ ہم پر یہ راز آشکار کرتا ہے کہ بانیان پاکستان سے جو سوال پاکستان مخالف میڈیا تواتر سے پوچھتا تھا وہ یہ کہ آخر وہ تقسیم ہند کیوں چاہتے ہیں، مذید یہ کہ دو قومی نظریے سے ان کی کیا مراد ہے،؟ درحقیقت کسی ریاست کو اس کے بنیادی مقاصد سے دور کرنے کےلئے یہ طریقہ واردات آزمودہ ہے کہ اس کے بانیان کے نظریات بارے ابہام پیدا کردیا جائے، مثلا وطن عزیز میں آپ کو بے شمار پڑھے لکھے افراد باآسانی مل جائیں گے جو یہ تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں کہ قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کو جدید اسلامی جہموری اور فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے، آج خیبر تا کراچی قائد اعظم اور علامہ اقبال بارے ہمارا رویے یہ ہے کہ اکثر سرکاری وغیر سرکاری عمارات کی دیواروں پر بانیان پاکستان کی تصاویر تو ہیں مگر ہمارے ہاں عام وخاص کی اکثریت دونوں شخصیات کے افکاروخیالات سے نابلد ہیں، بطور پاکستانی سمجھ لینے کی ضرورت ہے کہ قائداعظم اور ان کے رفقاءنے اچانک دو قومی نظریے کا تصور پیش نہیں کیا، نہ ایسا ہوا محمد علی جناح نے یکا یک الگ مملکت کے قیام کا مطالبہ کردیا، اس کے برعکس قائد اعظم ہندوستانی مسلمانوں کو تین عشروں تک اقلیت قرار دیتے ہوئے سیاسی اور قانونی میدان میں ان کےلئے مناسب مقام کے متلاشی رہے، بانی پاکستان کو مایوسی تب ہوئی جب کانگریس اور ان کی ہمنوا ہندو انتہاپسند تنظیموں نے بطور اقلیت مسلمانوں کو ان کا جائز مقام دینے سے انکار کردیا، یوں 1930 کے عشرے میں قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلمانوں کا الگ قوم کا مطالبہ کردیا، ایک نقطہ جس کی وضاحت بے حد ضروری ہے وہ یہ کہ محمد علی جناح کی جانب سے مسلمانوں کو ایک الگ قوم قرار دینا کسی طور پر ہندووں سے نفرت اور حقارت کا اظہار نہ تھا، مثلا میمن چمبرز سے خطاب میں کرتے ہوئے قائداعظم کا کہنا تھا کہ ” آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں عظیم ہندو کمینوٹی اور اس سب کا جس کی وہ علمبردار ہے،احترام کرتا ہوں، معروف مورخ اسٹینلےوولپرٹ قائد اعظم کو یوں خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ ”کچھ ہی لوگ ےتاریخ کے رخ کو فیصلہ کن انداز میں موڈنے کی اہلیت رکھتے ہیں، ایسے لوگ اور بھی کم ہوتے ہیں جو دنیا کے نقشہ کو بدل سکیں، یہ ہنر تو شائد ہی کسی کو آتا ہو کہ ایک قومی ریاست کی تشکیل کرسکے، محمد علی جناح نے یہ تینوں کام کیے ” جو لوگ یہ دہائی دیتے ہیں کہ قائد اعظم پاکستان کو کٹر مذہبی ریاست بنانے کے خواہمشند تھے انھیں بانی پاکستان کی 11 اگست 1947 کی وہ تقریر ہرگز ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہے جس میں محمد علی جناح دوٹوک انداز میں کہتے ہیں کہ”اب آپ آزاد ہیں،اس مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں، آپ مندروں میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں، آپ کا کسی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو، مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں، ” یقینا قائد اعظم محمد علی جناح کی گیارہ اگست 1947 کی تقریر پاکستان کو جدید قومی ریاست بنانے میں مشعل راہ کا کردار ادا کرسکتی ہے، دوسرا سوال یہ ہے کہ علامہ اقبال نے فکری محاذ پر پاکستان کا تصور کب اور کیسا پیش کیا، حکیم الامت نے 1930 میں آلہ باد میں اپنے مشہور خطبے میں برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کےلئے الگ ملک کی پیشنگوئی کرتے ہوئے کہا کہ ”میری خواہش ہے کہ پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبہ، سندھ اور بلوچستان کو ایک ریاست میں ملایا جائے، خواہ یہ ریاست سلطنت برطانیہ کے اندر خودمختاری حاصل کرے یا اس کے باہر، مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالاآخر ایک منعظم اسلامی ریاست قائم کرنی پڑے گی،اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام بحیثیت تمدنی قوت کے زندہ رہے تو ضروری ہے کہ ایک مخصوص علاقے میں مرکزیت قائم ہو، میں صرف ہندوستان اور اسلام کے فلاح وبہبود کے خیال سے ایک منعظم اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ کررہا ہوں”یہ بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ شاعر مشرق اپنی شاعری سے مسلمانوں میں کیسی عقابی روح بیدار کرنے کے متمنی تھے، علامہ کی شاعری کا طائرانہ جائزہ لیں تو کہا جاسکتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی نشاظ ثانیہ کے شدید خواہشمند تھے، برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کے الگ وطن کے قیام کی خواہش کے درپردہ ان کا یہی اعلیٰ مقصد کارفر تھے، مثلا وہ کہتے ہیں کہ
کبھی اے نوجوان مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے ٹوٹا ہوا تارہ
تجھے اس قوم نے پالا آغوش محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاوں میں تاج سردارا
آج بطور پاکستانی ہمیں خود سے سوال کرنا ہوگا کہ ہم کس حد تک قائداعظم اورشاعر مشرق کے فرامودات کی روشن میں اس مملکت خداداد کو ڈھالنے میں کامیاب ہوئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے