زندگی ایک جہد مسلسل اور آگے بڑھنے کا نام ہے۔اپنی بقا کی جدوجہد اوراپنے مقصد حیات کو پانے کا شوق انسان کو اِس خلافت کا اہل بناتی ہے جس کے لئے اللہ عزوجل نے اسے منتخب کیا ہے۔انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی معاملات تک انسان پرچند اصول و ضوابط کی پابند ی ضروری ہے جس کے بغیرزمیں پر اُس کی خلافت کا تصورممکن نہیں ہے۔قرآن مجید کی سورة الزاریات کی آیت نمبر56 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔” ترجمہ اور میں نے جن اور آدمی اس لئے بنائے کہ میری عبادت کریں“۔عبادت انسان کے طرز زندگی اور اخلاقیات وعادات پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ دنیا کے سب مذاہب کے طریقہ عبادت میں فرق ہے اور اِسی وجہ سے ان کی ثقافت بھی ایک دوسرے سے الگ ہے یہی فرق”نظریہ پاکستان”کی بنیاد بنا اور قیام پاکستان کی وجہ بنا۔وطن عزیزپاکستان کی تحریک آزادی درحقیقت مسلمانوں کے تشخص ،مذہبی عقائداورتمدن کے تحفظ کی ایک بے مثال تاریخی جدو جہد تھی۔اس تحریک کا مقصد مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ اور اِن کی شناخت کو واضح کرنا تھا۔ اس خیال پر عمل کےلئے ایک الگ وطن کا قیام انتہائی لازم تھا۔اس جدوجہد کو تحریک پاکستان کا نام دیا گیا۔ اس کا آغاز اُس وقت ہوا جب 1930ءمیں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے الہ آباد میں مسلم لیگ کے اکیسیوں سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے برصغیر کے شمال مغربی حصے میں جداگانہ مسلم ریاست کے قیام کا مطالبہ پیش کیا ۔ اقبال رحمتہ اللہ کے اِس خواب کوعملی تعبیر دینے کےلئے مختلف شخصیات نے اہم کردار ادا کیا جن میں چودھری رحمت علی رحمتہ اللہ کا نام نمایاں ہے ۔انہوں نے 1933ءمیں“پاکستان” کا نام تجویز کیا۔ سندھ مسلم لیگ نے 1938ءکے سالانہ اجلاس میں برصغیر کی تقسیم کے حوالے سے قرارداد منظور کروالی۔ قائد اعظم 1930ءمیں الگ مسلم ملک کے قیام کا فیصلہ کر چکے تھے،1940ءتک قائد اعظم نے قوم کو ذہنی طور پر علیحدہ وطن کی جدوجہد کےلئے تیار کر لیا،اس کے بعد 23 مارچ 1940 کو لاہور میں”منٹو پارک “میں برصغیر کے مسلمانوں کا ایک عظیم اجتماع منعقد ہوا،اس میں ہندوستان بھر سے مسلمانوں نے بھرپور شرکت کی۔اس موقع پر ایک قرارداد منظور ہوئی جس کے مطابق مسلمانان ہند نہ صرف انگریزوں سے آزادی چاہتے تھے بلکہ ہندو¶ں سے بھی الگ ہونے کے خواہشمند تھے۔قیام پاکستان کوئی جذباتی مطالبہ نہیں تھا۔ انگریزوں کا رویہ متعصبانہ تھا، اس کے علاوہ ہندو¶ں کی مسلمان دشمنی بھی کسی سے کوئی ڈھکی چھپی بات نہ تھی۔ مسلمانوں کے بنیادی حقوق کا استحصال، سرکاری ملازمتوں اور اعلیٰ عہدوں سے محرومی، اردو ہندی تنازعہ، 1857ءکی جنگ آزادی کے بعد ہندو¶ں کی اسلام دشمنی جیسے واقعات نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ مسلمانوں کا ہندو¶ں کے ساتھ مل کر رہنا ،ان کے حقوق کی پامالی کا سبب اور تہذیب و ثقافت کےلئے ایک بہت بڑاخطرہ ہے۔چنانچہ مسلمانوں کی لاتعداد قربانیوں کے نتیجے میں یہ مملکت ِخداداد پاکستان 14 اگست 1947ءکومعرض وجود میں آئی مگر مصائب ختم نہیں ہوئے ،اثاثہ جات کی تقسیم میں تعصب برتا گیا،مسئلہ کشمیر آج تک حل نہیں ہوا۔ آزادی کا مطلب محض زمین حاصل کرنا نہیں بلکہ ذہنی غلامی سے چھٹکارا ہے ۔پاکستان کی ثقافت اور رسوم پر اب بھی ہندو معاشرے کا اثر نمایاں ہے۔ رشوت، فرقہ واریت،سود، عدم برداشت، بدعنوانی،اقرباءپروری، استحصال اورمنفی سوچ میں قائد کا خواب کہیں کھو گیا ہے۔ آبا و اجداداکی قربانیوں کو بھلا کر وطن کو تنزلی کی راہ پر لا کرحب الوطنی کا نعرہ لگانا محض لفاظی ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ یہاں کچھ بھی بہتراور مثبت نہیں۔ملک میں جب بھی کوئی قدرتی آفات مثلا زلزلہ یا سیلاب وغیرہ آیا تو عوام نے ہمیشہ اک دوسرے کی مدد کی۔پاک فوج کے غیور جوانوں نے ایسے میں اپنے تن من دھن سے اپنے اہل وطن کی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑی ہے ۔یہاں تک کہ ملک وقوم کی خدمت میں زلزلہ و سیلاب کی جگہوں میںاکثر اپنی جانوں تک سے گئے۔قوم کو اپنے ان ہیروز پر فخر اور مان ہے۔یقینا ایسے لوگ وطن کی آن بان شان ہوتے اور سرمایہ زندگی کہلواتے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ پاکستان ایسے ہی شیر جوان آرمی آفیسر و جوانوں کے دم سے ہی چمکتااوردھمکتاہے اورحاصل آزادی جو آج ہمیں میسر ہے تحریک پاکستان کے 1947 کے اُن لٹے پٹے قافلوںکی ریاضتوں ، شہادتوںاور ملک وقوم کےلئے مشکل حالات ”زلزلہ و سیلاب“ میں عوامی سیوا کرتے ،اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کردینے والے،ا ن کےلئے مٹ جانے والے اِن آرمی آفیسرز و جوانوںکے طفیل ہے۔
٭٭٭٭٭