کالم

قرآن مجےد کتاب ہداےت ہے

قرآن مجےد کتاب ہداےت ہے ۔اﷲ کا سب سے بڑا انعام ہے۔اﷲ کے بندوں پر ےہ اس کی بے پاےاں رحمتوں کا خزےنہ ہے ۔وہ رحمان ہے جس نے قرآن کی تعلےم دی ہے ۔ےہ مبارک کتاب اس لئے اتاری کہ عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لےں ۔قرآن مجےد مےں اشارات بھی ہےں ،واقعات بھی ،حقائق بھی ،عام پڑھنے والے کےلئے اس الہامی کتاب مےں اس کی سطح کی بات ہے ۔تشرےح کرنے والوں کےلئے واقعات ہےں ،دروےشوں اور ولےوں کےلئے لطائف موجود ہےں جو بہت بارےک معنی و مفاہےم اپنے اندر پوشےدہ رکھتے ہےں ۔اس سمندر کی گہرائی مےں غوطہ زن ہونے والے عالموں کےلئے اس آسمانی کلام مےں فصاحت ،بلاغت ،حقائق اور شفا سبھی کچھ موجود ہے ۔قرآن کرےم مےں خدا نے اےک زبردست اور معنی خےز حکاےت بےان کی ہے ۔ےہ حکاےت قرآن حکےم اٹھاروےں سورہ ” الکہف“ مےں (60وےں سے 82وےں آےات ) تک بےان ہوئی ہے ۔ حکاےت کچھ ےوں چلتی ہے ۔حضرت موسیٰ علےہ السلام نے خدا سے کہا ” اس کی کےا وجہ ہے کہ تےری دنےا مےں جو واقعات پےش آتے ہےں ان مےں سے کچھ کی وجہ تو سمجھ مےں آتی ہے لےکن کچھ کی نہےں آتی اور وہ راز ہی بنے رہتے ہےں ؟اﷲ نے موسیٰ سے کہا کہ اےسا کرو جہاں دو درےا ( مصر مےں درےائے نےل کے دو دھارے نےل ابےض ےا سفےد نےل اور نےل ارزق ےا نےلا نےل )آپس مےں ملےں وہاں سے آگے چلتے جاﺅ ،ےہاں تک کہ تمہےں ہمارا اےک خاص بندہ مل جائے تم اس کے شرےک سفر بن جانا اور دےکھتے رہنا کہ وہ کےا کرتا ہے ۔حضرت موسیٰ نے کہا کہ ےا خدا درےا تو بہت لمبا ہے ،مجھے کوئی نشانی عطا کر دےں جس سے مجھے پتہ چل جائے کہ تےرا وہ بندہ مجھے کہاں ملے گا۔۔۔۔؟خدا نے کہا جہاں تمہاری مچھلی اچھل کر درےا مےں گر جائے ،بس وہےں وہ بندہ تمہےں مل جائے گا ۔حضرت موسیٰ نے اپنا اےک خادم ہمراہ لےا اور اﷲ کی ہداےت کے مطابق اےک مچھلی بھی ساتھ رکھ لی ۔جب آپؑ درےاﺅں کے سنگم پر پہنچے تو مچھلی پر نگاہ رکھنا بھول گئے اور مچھلی ان کے بے دھےانی مےں ان کے تھےلے سے نکل کر درےا مےں ےوں جا گھسی جےسے تھےلے مےں کوئی سرنگ بنی ہوئی تھی ۔جب چلتے چلتے دور نکل گئے اور تھک کر چور ہوگئے تو حضرت موسیٰ نے خادم سے کہا تھےلے سے مچھلی نکالو ،بہت بھوک لگی ہے کچھ کھا پی لےں ۔خادم نے دےکھا کہ تھےلا تو صحےح سلامت ہے لےکن مچھلی غائب ہے ،اس نے معذرت چاہتے ہوئے کہا ،جناب ! مےں مسلسل تھےلے اور مچھلی کا خےال رکھ رہا تھا لےکن دےکھئے کےسی بات ہوئی کہ جب ہم پےچھے اےک چٹان کے قرےب رک کر تھوڑا سستا رہے تھے تو شےطان نے مجھے غافل کر دےا تو اتنے مےں مچھلی نکل کر درےا مےں گھس گئی اور مےں آپ ؑ کو بھی اس واقعہ سے آگاہ نہ کر سکا ۔حضرت موسیٰ نے کہا اوہو ےہی تو وہ نشانی تھی جس سے ہمےںا س بندہ خدا کا پتا چلنا تھا جس کی تلاش مےں ہم ےہاں آئے ہےں ۔چنانچہ وہ اپنے نقش قدم پر واپسی جگہ پہنچے جہاں وہ مچھلی غائب ہوئی تھی اور وہاں وہ انہےں مرد خدا مل گےا جسے خدا نے اپنی خصوصی رحمت سے براہ راست باطن علم عطا فرماےا تھا اور جنہےں احادےث رسول اور اسلامی رواےات کے مطابق حضر کا نام دےا جاتا ہے ۔رواےات کے مطابق حضر پانی مےں رہتے ہےں ۔ سمندروں کے سبز رنگ کے باعث انہےں جو علامتی نام دےا گےا ہے اس کا لغوی مطلب سبز ہے ۔خدا کے اس باطنی پےغمبر کا کام بھولے بھٹکے مسافروں کو راہ بتانا اور تلاش حق مےں نکلے ہوئے طالبوں ،سالکوں اور دروےشوں کو خدا کا راستہ دکھانا ہے ۔جب موسیٰ نے انہےں پہچان لےا تو حضر سے کہا کےا مےں آپکے پےچھے پےچھے (آپ کا اتباع کرتے ہوئے ) آ سکتا ہوں تا کہ آپ کو جو اعلیٰ تر علم (رشد ) عطا ہوا ہے ازراہ کرم مجھے بھی وہ سکھا دےں ۔حضر نے کہا بخوشی مےرے رفےق سفر بن جائےے لےکن راستے مےں آپ مجھے جو کرتا ہوا دےکھےں گے آپ اسے برداشت نہ کر سکےں گے وےسے بھی جس چےز کا آپ کو علم ہی نہےں دےا گےا آپ اسے کےونکر قبول کر سکتے ہےں ؟ موسیٰ نے کہا ” انشاءاﷲ آپ دےکھےں گے کہ مےںنہ صرف صبرو تحمل سے کام لوں گا بلکہ کسی طرح بھی آپ کی حکم عدولی نہ کروں گا ۔اس پر حضر نے ےہ شرط رکھ دی کہ اگر آپ مےرے پےچھے آئےں گے تو جب تک مےںخود اپنے اعمال کی وضاحت نہ کروں آپ کسی بات کی بابت سوال ےا اعتراض نہےں کرےں گے اور اگر آپ باز نہ آئے تو ہماری راہےں الگ ہو جائےں گی “۔چنانچہ دونوں ساتھ ساتھ چل دئےے ۔سفر کے اےک مرحلے پر وہ اےک کشتی مےں سوار ہوئے ۔کنارے پر پہنچ کر خضر نے کشتی مےں سوراخ کر دےا ۔موسیٰ رہ نہ سکے اور کہہ اٹھے ” ےہ تو آپ نے بہت برا کےا “۔کےا آپ اس مےں سفر کرنے والوں کو ڈبونا چاہتے ہےں ؟ حضر نے موسیٰ کو ےاد دلاےا کہ مےں نے تو آپ سے پہلے کہہ دےا تھا کہ آپ مےری رفاقت کی تاب نہ لا سکےں گے ۔بہتر ہے کہ آپ اپنا راستہ بدل لےں اور مجھے مےرے حال پر چھوڑ دےں ۔موسیٰ نے پشےمان ہو کر کہا کہ آپ ناراض نہ ہوں ،مجھ سے بھول ہو گئی ،مجھے اپنے ساتھ چلنے دےں ،مگر مےرے ساتھ ہتھ ذرا نرم رکھےں ۔مےں آئندہ آپ کے معاملات مےں دخل نہ دوں گا ۔پھر وہ دونوں آگے چلے ےہاں تک کہ انہےں اےک لڑکا ملا جسے حضر نے دےکھتے ہی قتل کر دےا ۔موسیٰ نے تڑپ کر کہا ” آپ نے اےک بے گناہ کی جان لے لی حالانکہ اس نے کسی کا خون نہ کےا تھا ،ےہ تو آپ نے بہت برا کےا ۔حضر نے کہا آپ نے پھر وعدہ خلافی کی ۔مےں نے آپ سے کہا توتھا کہ آپ مےرا ساتھ نہ دے سکےں گے ،بے صبر ہو جائےں گے اور بے چےن ہو جائےں گے ،بہتر ہو گا کہ ہم اےک دوسرے سے جدا ہو جائےں ۔موسیٰ نے کہا ،بس اےک مرتبہ مجھے معاف کر دےں ۔اس کے بعد اگر مےں کسی بات پر اعتراض کروں تو پھر مجھے اپنے سے الگ کر دےنے مےں حق بجانب ہوں گے ۔چلتے چلتے وہ اےک قصبے مےں پہنچے اور وہاں آباد لوگوں سے کچھ کھانے کےلئے مانگا لےکن ان سخت دل لوگوں نے انہےں پےٹ کی آگ بجھانے کو کچھ بھی نہ دےا ۔اس قصبے مےں انہوں نے اےک مکان کی دےوار دےکھی جو گری تھی ۔حضر نے موسیٰ کی مدد سے گارا بنا کر وہ دےوار دوبارہ تعمےر کر دی ۔موسیٰ نے کہا ،اس قصبے کے لوگوں نے ہماری درخواست پر پےٹ بھرنے کو دو سوکھی روٹےاں بھی نہےںدےں اور آپ نے ان کی ےہ دےوار مفت مےں مرمت کر دی ہے ،ےہ لوگ اس کے مستحق نہ تھے ،آپ کو ان سے اس کام کی اجرت لےنی چاہےے تھی ۔اس پر حضر نے کہا ”بہت ہو چکا ، ےہاں مےرا اور آپ کا ساتھ ختم ہوا ۔البتہ اب مےں آپ کو ان تےنوں واقعات کی حقےقت بتاتا ہوں جن کی وجہ سے بے صبر ہو کر آپ حسب وعدہ خاموش نہ رہ سکے ۔کشتی کا معاملہ ےہ ہے کہ وہ اےک نہاےت غرےب اور مسکےن کنبے کی گزر اوقات کا واحد ذرےعہ تھی مےں نے اس مےں سوراخ ڈال کر ڈبو دےا ۔اس علاقے کا حکمران جنگی تےارےوں کےلئے لوگوں کی ذاتی کشتےاں زبردستی چھےن رہا تھا ۔جب اس کے کارندے اس علاقے کی کشتےاں ضبط کرنے آئےں گے تو ےہ ڈوبی ہوئی کشتی ان کو نظر نہ آئے گی اورآ بھی گئی تو پےندے مےں سوراخ کے باعث اسے بے کار سمجھ کر چھوڑ دےں گے ۔چند روز بعد گدلا پانی شفاف ہو جائے گا اور کشتی نظر آنے لگ جائے گی ۔کشتی کے مالک غرےب لوگ اس کی مرمت کر لےں گے اور ےوں اپنے ذرےعہ معاش سے محروم نہےں ہوں گے ۔جس لڑکے کو مےں نے قتل کر دےا اس کے ماں باپ خدا کے اےماندار اور اطاعت گزار بندے ہےں ۔جس انداز سے وہ لڑکا پرزے نکال رہا تھا ۔اس پر اہل نظر پر واضع تھا کہ وہ اپنی سرکشی اور بدچلنی کے باعث اپنے ماں باپ کی جان عذاب مےں ڈال دے گا ۔اس لئے ےہ طے پاےا کہ اسے موت کے گھاٹ اتار کر خدا اس کی جگہ اےک اےسا لڑکا (نعم البدل ) عطا کر دے جو نےک ،خوش شکل اور رحمدل ہو ۔اس قصبے مےں ہم نے جو عمارت مرمت کی ہے وہ اس گھر کی ہے جو ےتےم بچوں کی وراثت ہے ۔ان دونوں کا باپ بہت نےک اطوار تھا اور اس نے مرنے سے پہلے اس دےوار مےں اےک خزانہ دفن کر دےا تھا تا کہ جب ےہ بچے جوان ہوں تو ان کے کام آئے ۔آپ نے بستی والوں کی سفاکی تو دےکھ لی ہے کہ ہمےں کسی نے دو نوالے ہی نہےں دئےے ۔ےہ دےوار اس حد تک گر چکی تھی کہ خطرہ تھا کہ اس مےں مدفون خزانہ بستی والوں کے ہاتھ لگ جاتا ۔ہم نے دےوار کی مرمت کر دی ہے تا کہ جب تک اس خزانے کے حقدار جوان ہوں ےہ ان سفاک لوگوں کی پہنچ سے بچا رہے ۔ مےں نے جو کچھ بھی کےا ہے آپ کے رب کی رحمت کی بنا پر کےا ہے ۔لےجئے مےں نے تےنوں واقعات کی تہہ مےں پوشےدہ مشےت خدا وندی واضح کر دی ہے جس سے لا علم ہونے کے باعث آپ بے صبر اور بے چےن ہو کر اعتراض کرنے لگ جاتے ۔اب آپ اپنی راہ پکڑےں اور مجھے اپنی راہ چلنے دےں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے