کالم

قرض آن لائن ۔ ایک مکروہ دھندہ

latif khokhar

راولپنڈی کامسعود آن لائن قرض کے چنگل میں ایسا پھنسا کہ قرض پر قرض لینے کے باوجود اصل زر ادا نہ کر سکا اور بالآخر اپنے ہی گلے میں پھندہ ڈال کر ہمیشہ کےلئے ابدی نیند سو گیا۔ مسعود کے دو بچے ہیں اور اسکی والدہ غم سے نڈھال ٹی وی پر قرض خواہوں کے بار بار تنگ کرنے، فون کالوں کی بھرمار اور دھمکی آمیز گفتگو بیان کرتے بھیگی آنکھوں سے بیٹے کو بار بار یاد کرتی اس سسٹم کو کوس رہی تھی۔ اصل قرض بھی کوئی اتنا زیادہ نہ تھا محض تیرہ ہزار ،جو سود بڑھنے پر لاکھوں میں چلا گیا۔یہ ایک بے چارہ مسعود اپنی غربت کی بھینٹ نہیں چڑھا ملک کے کونے کونے میں سیکڑوں آن لائن فراڈیے روزانہ ہزاروں لاکھوں مسعود جیسے لوگوں کو گھیر گھار کر قرض لینے پر مجبور کرتے ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی بڑا واقعہ رونما ہوتا ہے تو ہمارے ادارے خواب غفلت سے جاگ جاتے ہیں جیسے SECP نے آج انکشاف کیا ہے کہ ملک میں صرف اس قسم کی دو ایپس یا ادارے رجسٹرڈ ہیں باقی سیکڑوں غیر قانونی طور پر یہ دھندا جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ ایک خبر کے مطابق یہ وبا پہلے کینیا میں شروع ہوئی، دائرہ کار پورے یورپ تک پھیلانے کی کوشش کی لیکن وہاں قوانین کی سختی کی وجہ سے یہ سکیم نہ چل پائی اور پھر بھارت میں اپنے جڑیں پھیلانے کے بعد اب پاکستان میں انکا دھندہ پورے عروج پر پہنچ چکا ہے۔ گویا یہ ایک بین الاقوامی سطح کی فراڈ سکیم ہے جو آسان شرائط کی آڑ میں پہلے مجبور ضرورت مندوں کو اپنے جال میں پھنساتی ہیں اور پھر اسکے جسم سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ملک کے دگرگوں مالی حالات اور موجودہ غربت کے لیول کو دیکھتے ہوئے ہمارے ملک میں بھی کچھ سچے، مخلص اور ایماندار افراد اور تنظیموں کی ضرورت تھی جو بنگلہ دیش کے گرامین بینک کی طرز پر بلاسود قرضے اپنے ضرورت مندوں کو دیتے،انکی مالی معاونت کےساتھ انکے چھوٹے چھوٹے کاروباروں کی بھی امداد کرتے ، لیکن جیسا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ SECP کے ریکارڈ کے مطابق یہاں صرف دو ادارے رجسٹرڈ ہیں جو بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کہ باقی سیکڑوں آن لائن ادارے کیسے اتنے وسیع پیمانے پر اپنا یہ مکروہ دھندہ جاری رکھے ہوئے ہیں؟
قرض صدیوں سے ہر کوئی لیتا چلا آ رہا ہے، کسی نہ کسی کو کسی بھی وقت ضرورت کے تحت قرض لینا پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام میں قرض حسنہ کو احسن اور سود کو حرام قرار دیا گیا ہے ۔ مجھے ذاتی طور پر اس لعنتی کاروبار سے واسطہ پڑا اور میں نے دیکھا کہ سود خور کس طرح لوگوں کی مجبوریوں سے فائدے اٹھاتے رہتے۔ میرے پڑوس میں ایک صاحب رہتے تھے، رنگ کا کام کرتے، محنت کش انسان لیکن کسی نہ کسی طرح سود خوروں کے چنگل میں پھنس گئے، بچے یا بچی کی شادی کرنا تھی، کسی سود خور سے ڈیڑھ لاکھ قرضہ اٹھایا اور اپنی ضرورت پوری کرنے کے بعد لگے قرضہ اتارنے لیکن سود در سود کی وجہ سے قرض تھا کہ بڑھتا ہی چلا گیا اور رقم چار لاکھ کے قریب پہنچ گئی۔ انہوں نے اسکا حل یہ نکالا کہ کسی دوسرے سود خور سے کچھ رقم لے کر پہلے والے کو شارٹ اقساط ادا کیں، لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی اور اب یہ روزانہ کا معمول بن گیا کہ سود خور قرضہ وصول کرنے انکے دروازے کھٹکھٹاتے،اول فول بکتے رہتے لیکن یہ بھائی صاحب گھر میں ہوتے ہوئے چھپتے چھپاتے رہتے، گھر کی عورتیںمنت سماجت کرتیں لیکن وہ ماں بہنوں کی گالیوں سے بھی باز نہ آتا، بدتمیزی کی اس فضا میں قرضدار شدید ذہنی دبا کی وجہ سے بیمار ہو گیا۔ کسی نہ کسی طرح یہ بات مجھے معلوم ہوئی، چونکہ میں وکالت کے شعبے سے منسلک تھا اور قوانین کا علم تھا، اس صاحب کو کہا کہ جب بھی خان لوگ قرضہ لینے آئے یا فون کرے تو اسے گھر پر بلا کر میرے پاس لے آئے۔ بحرطور ایک دن ایسا ہی ہوا۔ پہلے پہل تو خان صاحب آپے سے باہر ہو گیا کہ میں کیا چاہتا ہوں ۔ لگا ادھر ادھر کے رابطوں کا مجھ پر رعب جھاڑنے، لیکن جب میں نے اسے سمجھایا کہ میں یہ مسئلہ ہمیشہ کےلئے حل کرنا چاہتا ہوں جسمیں دونوں فریقوں کا بھلا ہے اور یہ کہ قانون اس صورتحال میں کیا کہتا ہے اور اسکے سامنے اصل زر اپنے پاس سے دے کر یہ وعدہ لیا کہ آئندہ اس گلی میں نظر نہ آنا اور بھول جا کہ وہ کسی سود کا بھی حقدار ہے کیونکہ اس صورت میں اس پر ایف آئی آر بھی کٹ سکتی ہے، چاہتے نہ چاہتے ہوئے اس نے قرض سے بے باک کی تحریر پر دستخط کیے اور چلتا بنا۔ یہ اور بات ہے کہ میں نے وہ رقم جس طرح وصول کی وہ میرے اور اس صاحب کے درمیان ہے جسے فوت ہوئے بھی تقریباً ایک سال ہونے کو ہے۔ سود خوروں کی ایک تاریخ ہے، قیام پاکستان کے بعد یہاں پٹھانوں کے ایک مخصوص طبقے کی طرف سے اس طرح کے قرضے دیئے جانے کا بہت بڑا کاروبار تھا، جسکی وجہ سود در سود وصولی اور وحشیانہ حد تک قرضہ وصولی پر انکا رویہ آج بھی کچھ لوگوں کو بھولا نہیں ہو گا۔ ایک لطیفہ مشہور ہے کہ اسی طرح کے ایک سود خور خان صاحب کو پتہ چلا کہ ان کا قرض دار فوت ہو گیا ہے اور دفن کر دیا گیا ہے ۔وہ سود خور خان میت والے گھر آتا ہے اور باقاعدہ فاتحہ خوانی کے بعد اپنے کلائنٹ کا نام لے کہتا ہے کہ وہ کدھر ہے، بتایا گیا کہ مر گیا ہے تو سود خور کہتا ہے کہ اسے اسکی قبر تک لے چلو کیونکہ اس نے تو اسکی قبر سے بھی قرضہ وصول کر کے چھوڑنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ حکومت اور قانون کہاں ہے۔ جواب ہے کہ قانون تو بڑا زبردست موجود ہے ۔پرائیویٹ منی لینڈنگ ایکٹ جسکے تحت ایسی کسی بھی قسم کی ٹرانزیکشن ممنوع ہیں اور قابل سزا ہیں، رہا دوسرا سوال حکومت کہاں ہے تو ہم سب کو معلوم ہے کہ ہماری بارہ پارٹی پی ڈی ایم حکومت جو اپنی نکمی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کو تقریبا ڈیفالٹ کے قریب لا چکی تھی آجکل آئی ایم ایف سے بھاری اور مشکل ترین شرائط پر قرضہ حاصل کرنے کے بعد جشن حصول قرضہ منا رہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے