کالم

قصوروارکون….؟

a r tariq

آج اگر ہم یورپ اور اپنے حالات پر اےک طائرانہ نظر دوڑائیں تو یہ جاننے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا کہ یورپ والے ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ہم اُن سے ترقی میں اِتنے پیچھے رہ گئے ہیں کہ ُان جیسا بننے کے لیے ایک صدی سے زیادہ کا وقت درکار ہوگا۔اگر ہم اُن جیسے ترقی یافتہ ہوبھی جائیں تووہ اتنی دیر میں دُگنی ترقی کرچکے ہوںگے ۔ دیکھا جائے تو اہل یورپ کی حالت پہلے ہم سے بھی بدتر تھی۔اُنھوں نے ترقی کیسے کی؟وہ آج اتنے ترقی یافتہ کیسے ہوگئے؟ اُن کی یہ سب ترقی صرف مسلمان سائنس دانوں کی مرہون منت ہے۔ اُنہوں نے مسلمانوں کی لکھی کتابوں کا مطالعہ کیا۔اُن پر عمل کیااور اِس مقام تک پہنچے ۔وہ لوگ آج اتنے ترقی یافتہ ہیں کہ اب اُن کا مدمقابل کوئی نہیں ہے۔آج ہمارایہ حال ہے کہ ُان کی عطاکردہ تعلیم حاصل کر رہے ہیںلیکن پھر بھی ہم اُس مقام پر نہیں ہیں ۔ کیوں؟اِس لیے کہ ہم غفلت کی نیند سو رہے ہیں ۔ہم صرف اپنی ہی زندگی میں اِس طرح کھوئے ہیں کہ ہمیں کسی اور کی پرواہ نہیں ہے ۔ کام کرنا دُور کی بات ہم تو اِس بارے میں سوچتے بھی نہیں ہیں۔آج اسلامی ممالک میں پڑھی جانے والی کتابوں کا صرف پہلا باب ہی اِسلامی نام کا محتاج ہے اور باقی سب ابواب اہل یورپ کے ناموں سے بھرے پڑے ہیں ۔کیوں؟آخر ہم کیا کر رہے ہیںاپنے لیے اور اپنے دین اسلام کےلئے جو ہمیںتدبراور تحقیق کا درس دیتا ہے۔ہم لوگوں نے اسلامی احکامات کو چھوڑ دیا ہے اور اہل یورپ آج بھی ہماری اسلامی کتاب قرآن مجیدکے نسخوں پرتحقیقات کررہے ہیںجبکہ ہم نے اِسے صرف ثواب کی حد تک رکھا ہوا ہے۔یورپ کی سینکڑوں یونیورسٹیاں ہیںجو قرآن کے نسخوں پر غوروفکرکررہی ہیںجبکہ اسلامی ممالک میں اِس پر زور نہیں دیا جارہا۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ”اے لوگو!اللہ کی ر سی کو مضبوطی سے تھام لو“ ۔ لیکن ہم نے اِس رسی کو چھوڑا ہوا ہے توہم ترقی کیسے کر سکتے ہیں ۔ایک اور مقام پر کہا گیا ہے کہ ”اے لوگو!غوروفکر کروتمہارے لیے دن اور رات میںکھلی نشانیاں ہیں“دراصل ہم اِن نشانیوں کو دیکھیں گے کیسے !ہماری تو نیند ہی پوری نہیں ہوتی،رات کوتو نیند آنی ہی ہوتی ہے اوراگردن کے وقت بھی موقع ملے تو ہم دوبارہ نیند کا مزہ لے رہے ہوتے ہیں۔ہم اپنے آپ کو اِتنا مصروف سمجھتے ہیں کہ ہمارے لیے پانچ فرض نمازیں ادا کرنے کےلے وقت نہیں ہوتا جبکہ اہل یورپ کا کہنا ہے کہ مسلمانوں جیسی عبادت کرنے والاشخص کبھی بھی بیماریوں میں مبتلا نہیں ہوسکتا۔یہ اہل یورپ کا غوروفکرہی تو ہے کہ اسلامی احکامات کو آج سائنسی نظریے سے درست ثابت کر رہے ہیں۔وہ لوگ ہم لوگوں سے اِتنے آگے نکل چکے ہیں کہ آج ہم دیکھیں تو ساری نئی ایجادات صرف اِنہی لوگوں کی ہیں۔سائنس کو اہل یورپ نے پہلے ہم سے سیکھا ہے لیکن ہم لوگوں کوکیا ہو گیا ہے کہ ہم اِن کے محتاج ہوکرہی کیوں رہ گئے ہیں ۔آج اِس ملک میں اسلام کے اصول اور احکامات رائج ہیں؟نہیں،اِس کا قصور وار کون ہے؟ تمام اسلامی بھائیوں سے اور اہل وطن سے پوچھتا ہوں کہ ہمیں آخر ہوکیا گیا ہے ۔ ؟ ہماری سوچنے کی صلاحتیں کیوں ختم ہوگئی ہیں ؟ ہمیں بھی وہ سب صلاحتیں میسر ہیں لیکن ہم اُن کو بروئے کار کیوں نہیں لاتے ہیں ۔ آئیں !آرام کو چھوڑواوراسلامی احکامات پر عمل کرتے ہوئے آگے بڑھیں۔ غوروفکر کا اِیسا طوفان لائیں کہ اہل یورپ تو کیاپوری دنیا پکار اُٹھے کہ جذبہ ترقی ہوتو ایسا اور کہہ دیں کہ ہم مسلمان کے کل بھی محتاج تھے اور آج بھی ہیں۔آئیں اور دکھادیں کہ ہم کسی سے کم نہیں۔آئیں محنت ،لگن اورایمانداری سے کام کریں۔اپنے دین اور ملک کا نام روشن کرنے کا عہد کریں اور دنیا پر پھر سے غالب آجائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے