کالم

قوم کو تقسیم سے بچاناہوگا

مفاد پرستی اور نفرت کی سیاست اور لسانیت وفرقہ واریت نے پورے ملک کے باشعور اورفکرمندلوگوں کو ہلاکررکھ دیاہے ، دوستی اوردشمنی کامعیار لسانی یامسلکی بنیادیں بنتا جارہا ہے۔ لوگ دوستی اور رشتے ناتے کرتے وقت ایک دوسرے کے مسلک کودیکھ کرہی آگے بڑھتے ہیں،اس فرقہ وارانہ لہر میں رواداری معدوم ہے اور ہر فرقہ کی سوچ تنگ نظری پر مبنی ہے جب کہ جو کچھ وسیع القلب واقع ہوئے ہیں ان پر فتوے کا ٹھپہ لگادیا جاتا ہے۔ مسلکی بنیادوں پر کافی دوریاں محسوس کی گئی ہیں اواسلامی تہذیب کے جملہ راہ ورسم یہاں ہواہوتے نظرآرہے ہیں ۔ لوگوں میں عدم تحفظ کااحساس بڑھاہے ۔ تمام فرقے اپنے آپ کو ہی سچا مسلمان اور محب وطن تصورکرتے ہیں جبکہ باقی سب ہی یہود و ہنود اور استعمار کے ایجنٹ قرار دئے جاتے ہیں۔ انا و لا غیری کے فارمولے پر ہر فرقہ کے پیروکار عمل کرتے ہیںجس کے نتیجے میں مخالف فرقے کا ردعمل بھی شدید اور نہایت سخت اورجارحانہ ہوتا ہے۔ جبکہ بہت لوگوں کو لوگوں کو اعتدال پسند کہاجاسکتاہے اور مگر ان کی حب الوطنی کو شکوک سمجھا جاتا ہے اور فتوے لگا کر ان کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ہمارا ملک اب تک ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں کیوں شامل نہیں ہوسکاا س کی سب سے بڑی وجہ کچھ لوگ یہاں ناخواندگی کو قرار دیتے ہیں ، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ صحت کی ناگفتہ بہ حالت نے اس ملک کو آگے بڑھنے سے روک رکھا ہے،ایک حلقہ غربت کو قصوروارگردانا جاتاہے، ایک گروہ ایسابھی ہے جن کا خیال ہے کہ اس ملک کو آگے بڑھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ بھارت ہے۔ لیکن ایک بہت بڑاطبقہ وطن عزیز کی ترقی میں بدعنوانی اورچوربازاری کو سب سے بڑی رکاوٹ قراردیتاہے لیکن راقم الحروف کا خیال ہے کہ ملک کی تعمیر وترقی کی راہ میں فرقہ واریت کاایک جنونی بھوت کھڑاہے جو بظاہرنظرنہیں آتا لیکن وہ گھن کی طرح اس ملک کے تمام سماجی رشتوں کے تانے بانے کو تباہ کرنے پر مصرہے، فرقہ واریت کی آگ اس ملک کی اسلامی اقدار و تہذیب کو مٹانے پر آمادہ ہے اوراگر جلد ا س پر توجہ نہیں دی گئی توپھر یہ آگ جھونپڑیوں کو بھی جلائے گی اورقصرسلطانی کوبھی۔اگرہم جائزہ لیں تواندازہ ہوتاہے کہ کچھ سیاست دانوں نے ووٹوں کی صف بندی کے لیے الفت ومحبت کو تاراج کردیااوراس میں سبھی سیاسی جماعتیں یکساں طورپر ذمہ دارہیں،اسی طرح فرقہ وارانہ فسادات نے بھی لوگوں میں دوریاں پیداکی ہیں۔فسادات کا دور ملک میں جنرل ضیاءکے عہدسے زیادہ فروغ پکڑ چکا ہے اور فرقہ وارانہ فسادات کی جڑیں مستحکم ہوئی ہیںاور فرقہ واریت کی ایک نئی تاریخ رقم کردی گئی طرفین کے بڑے بڑے لیڈر بھی مارے گئے اور ایسی دوریاں شروع ہوئی جو مٹنے کانام نہیں لے رہی ہیں۔ اگرہم انتخابی سیاست کاجائزہ لیں تواندازہ ہوتاہے کہ عیار اور مکار سیاست دان نہایت تکنیک سے ووٹروں کی لسانی اورفرقہ وارانہ صف بندی کرتے ہیںاور ووٹروں کے درمیانفرت کی لکیرکھینچ کر مفادات پورے کرتے ہیں ۔ ظاہرہے کہ ووٹوں کے لیے اس قسم کی کوششیں دوفرقوں میں دوریاں ہی پیداکرسکتی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ووٹروں کی فرقہ وارانہ صف بندی کے لیے صرف مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے سرگرم ہیں بلکہ اس کام میں دیگر جماعتوں کے لیڈران بھی کچھ کم نہیں ہیں،انہوں نے بھی کہیں لسانیت کے نام پر توکہیں ذات برادری کے نام پر ووٹروں کی صف بندی کی ہے۔ مسلمانوں کے غلبے کے دور کے ایک ہزار سال کی اسلامی تاریخ میں کبھی ایسی کیفیت دیکھنے کو نہیں ملی جن سے آج ہمارا ملک دوچارہے۔ برصغیر میں مسلمانوں کی حکمرانی کے وقت بھانت بھانت کے نظریات اور زبان والے لوگ آپس میں متحد تھے۔فرقہ واریت نہ صرف انتخابی میدانوں تک محدودہے بلکہ اب تو ہرمیدان میں اس نے اپنی جگہ بنالی ہے۔آج فرقہ واریت کا زہر تمام شعبہ حیات میں سرایت کرگیاہے، تعلیم کا شعبہ ہویا سیاست کا ،مقننہ ہویا منتظمہ ہرجگہ فرقہ واریت کے مظاہرے ہوتے رہتے ہیں اس کے باوجود معتدل مزاج لوگوں کی ایک بڑی تعدادہے جن کی وجہ سے یہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ضرورت اس با ت کی ہے کہ ایسے معتدل ذہن لوگوں کے افکارونظریات سے حکومتیں فائدہ اٹھائیں اور ملک میں فرقہ واریت کی جڑوں کو بیخ وبن سے اکھاڑپھینکنے کے ساتھ ساتھ معتدل اقدارکے فروغ کےلئے تیزگام ہو جائیں۔ورنہ فرقہ واریت کے جنونی اس ملک کو خطرناک موڑ پر لے جاکر بے یار و مددگار چھوڑ دیں گے۔ گزشتہ پچھتربرسوںں کی تاریخ گواہ ہے وطن عزیزمیں حقیقی سیاسی قیادت موجود نہیں رہی ابتدا ءسے لے کر آج تک سیاست کے سنگھاسن پربراجمان بزر جمہوری ملک و قوم کا نام تو لیتے رہے لیکن ملک و قوم کی تعریف ان کے ہاںذاتی جاگیر اورخاندان و گروہ ہوتا تھاقومی سیاست کے نام پرذاتی مفادات کا حصو ل اولین ترجیح ہوتی تھی اور جب بات ذاتی مفادات کی ہوئی تو اس میں لڑائی و جھگڑے کا کھیل لازمی عنصرکی حیثیت اختیارکر گیا یہ کھیل اُسوقت اور مظبوط ہو گیا جب امریکی سامراج نے یہاں کے مقتدر طبقات کو اپنے ذیر اثر کر لیا ۔یہاں ہر اچھے عمل کو سبوتاژ کرنابھی ایک روایت ہے اوریہ ایک بھی حقیقت ہے کہ یہاں آئین میں ترمیمات ہوتی رہتی ہیں اور بل وغیرہ پاس کئے جاتے ہیں لیکن کیا ان آئینی ترامیم کے نتیجے میں ملک میں موجود سامراجی استحصالی نظام تبدیل تبدیل ہوتا ہے؟ اور کیا ان ترمیمات کے ذریعے جاگیرداریت اور سرمایہ داریت کو کوئی خطرہ درپیش ہوتا ہے ؟یقینا اس کا جواب نفی میں ہے اور کیاان آئینی ترامیم کے نتیجے میں مزدوروںکے معیار ذندگی میں کوئی فرق آیااورغریبوں کی غربت اور امیروں کی کی امارت میںکوئی کمی ہوئی ہوئی ہے اور کیا طبقاتی نظام کا خاتمہ ہوا ہے؟ اور کیا ججوں کے تقرر کے جھگڑے چکانے میں عد ل و انصاف کا بول بالا ہوااور کیاقوم کے حقیقی مجرم کیفر کردار کو پہنچے ؟ عدالت اگر مافیا کےخلاف فیصلہ دیتی ہے تو عدلیہ کو دھمکیاں دی جاتی ہیں اور چنے چبوانے کی بات کی جاتی ہے اور پھر ان کے گھروں پہ فائرنگ کروائی جاتی ہے مگر نظام عدل کے لئے آواز اٹھائی گئی ہے؟ ایک آدمی کو بار بار وزیر اعظم بنانے اور ایک نا اہل کو اہل کرنے کیلئے تو قانون سازی کی جاتی ہے اور قومی احتساب کے ادارے کے پر کاٹنے کیلئے سب اکٹھے ہوتے ہیں مگر کیا عوام کا خیال بھی کسی کو ہے؟ مہنگائی روز روز بڑھ رہی ہے اور روپے کا زوال اور ڈالر کی ترقی کیوں ہے؟ اور کیا ہم نے اس پر بھی کبھی غور کیا کہ آخر دہشت گردی اور بنیاد پرستی کیوں بڑھ رہی ہے اور لسانی، مذہبی و سیاسی فرقہ واریت کے جراثیموںکا خاتمہ کیوں نہیں ہورہاہے؟ قومی ترقی کیلئے قومی وحدت ناگزیر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم کو تقسیم سے بچایا جائے اور قوم کو تقسیم کرنے والے عوامل کا خاتمہ کیا جائے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri