کالم

لاپتہ افراد کی حقیقت اوربنگلزئی کے انکشافات

بھارت اور بعض دیگر مغربی طاقتوں کی شہ پر وطن عزیز کےخلاف دہشتگرو¿دی پر مبنی مکروہ سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے اسی ضمن میں مبصرین کے مطابق یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ سرفراز بنگلزئی عرف مرید بلوچ (بی این اے کے سربراہ) کا اپنے ساتھیوں/خاندانوں سمیت ہتھیار ڈالنا پاکستان اور بلوچستان کےلئے ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔باہر بیٹھے لیڈران خود عیاشی کی زندگی گزار کر بلوچ نوجوان نسل کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔ان خیالات کا اظہار سرفراز بنگلزئی نے قومی دھارے میں شمولیت کے موقع پر کیا ۔ سرفراز کا کہنا تھا کہ پچھلے دو سال میں 150 بلوچوں کا قتل کیا گیا جس کی اصل وجہ ان نوجوانوں کا بھتہ دینے سے انکار تھا۔ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے کہ کون بلوچ عوام کو ورغلا کر استعمال کررہا ہے ، مجھے تحریک میں سوال اٹھانے کی وجہ سے سائیڈ لائن کردیا گیا۔ یہاں اس امر کا تکذہ بے جا نہ ہوگا کہ بنگلزئی نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی کا ہیلی کاپٹر تکنیکی خرابی کی وجہ سے کریش ہوالیکن بھارت کی ایماءپر BLA نے اس واقعے کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی ۔ بنگلزئی نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ مجھے اپنی مزاحمتی زندگی کے دوران بخوبی اندازہ ہوچکا ہے کہ بلوچستان اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں۔جو ساتھی بلوچ سرمچار اس دنیا سے جاچکے ان کے خاندان بالخصوص خواتین انتہائی بری حالت میں افغانستان میں دربدر ہیں اس کے علاوہ بھارت اور بی ایل اے جنگی کاروائیوں میں خواتین کو بطور ہتھیار استعمال کررہے ہےں ۔ بلوچ نوجوانوں اور عوام سے میری اپیل ہے کہ اس بھارتی دھوکے میں ہرگز نہ آئیں اور بلوچ ماوں کے لیے پیغام ہے کہ اپنے بچوں کو بیرونی ممالک کے مفادات کی آگ کا ایندھن بننے سے بچائیں۔اس ضمن میں ان کا مزید کہنا تھا کہ گلزار امام شمبے کے ساتھ ریاست نے جو مثالی سلوک کیا اس نے میری ہمت بڑھائی لہذا میری ریاست سے اپیل ہے کہ جو لوگ مسلح جدوجہد ترک کرنا چاہتے ہیں انہیں راستہ دیا جائے کہ وہ قومی دھارے میں واپس شامل ہوں۔ میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں، خاص طور پر آئی ایس آئی کی کوششوں کہ سراہتا ہوں جنہوں نے اس پیچیدہ منصوبے پر عملدرآمد کیا اور اس کی قیادت کی۔سنجیدہ حلقوں نے رائے ظا ہر کی ہے کہ یہ دن ریاست پاکستان بالخصوص بلوچستان کی تاریخ میں امن کے حصول کےلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے جب انتہائی مطلوب دہشت گرد سابق بی این اے کمانڈر سرفراز بنگلزئی نے 70 ساتھیوں کیساتھ ریاست کے اگے ہتھیار ڈال دیے اور اس بات کا اقرار کیا کہ ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں کھیلنے والے لوگ پاکستان بالخصوص بلوچستان کےلئے امن و بقا کے لیے خطرہ ہے۔اس کے ساتھ ساتھ سرفراز بنگل زئی نے مسنگ پرسن کے نام پر جھوٹا پروپیگنڈا جو ملک دشمن عناصر کی طرف پھیلایا جا رہا ہے اس کو بھی بے نقاب کیا۔غیر جانبدار مبصرین کے مطابق یہ امر بھی کسی تعارف کا محتاج نہےں کہ وطن عزیز میں لا پتہ افراد اور جبری گمشدگیوں کے نام پر ایک عجیب طرح کا بیانیہ ماضی قریب میں مرتب کیا گیا ہے تبھی تودوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ بلوچ یکجہتی کونسل کی طرف سے مسلسل احتجاج کیا جا رہا ہے حالانکہ عالمی دہشتگردوں کی لسٹ میں بی ایل اے پانچویں نمبر پر اور بی ایل ایف سترویں نمبر پر ہے۔ ایسے میں بلوچ یکجہتی کونسل ان دونوں کے سیاسی چہرے کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے، جو آج کل ایک ایسا احتجاج کر رہی ہے جس کا مقصد نہ صرف ملک کو کمزور کرنا ہے بلکہ بلوچ قوم کو بھی بدنام کرنا ہے۔واضح رہے کہ یہ نام نہاد بلوچ یکجہتی کونسل کریمہ بلوچ کی موت کے بعد وجود میں آئی تھی جب اس کی لاش ایک ندی کے کنارے کینیڈا میں ملی تھی اور کینیڈا پولیس کی رپورٹ کے مطابق وہ نشے میں تھی اور یورپی تنظیم ڈس انفو لیب نے کریمہ بلوچ کا تعلق انڈیا کے ساتھ ظاہر کیا تھا۔مبصرین کے مطابق یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ بلوچ یکجہتی کونسل کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ جو عبدل غفّار لانگو کی بیٹی ہیں، یہ وہ ہیں جو بی ایل اے کے ایک کمانڈر تھے اور ریاستی اداروں پر لاتعداد حملوں میں ملوث تھے۔ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نہ صرف ریاستی وظیفہ پر تعلیم حاصل کرتی رہی ہیں اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد سے اب تک وہ سرکاری تنخواہ کے ساتھ ساتھ متعدد سہولتیں بھی لے رہی ہے۔ایسے میں یہ سوال بجاطور پر اٹھتا ہے کہ ایک طرف سرکاری تنخواہ دوسری طرف دہشتگردوں کی حمایت کیوں ۔اس تمام صورتحال کے پس منظر میں غیر جانبدار حلقوں نے رائے ظاہر کی ہے کہ دستاویزی شواہد سامنے آنے کے بعد غالبا یہ کہا جا سکتا ہے کہ لاپتہ اور جبری گم شدگیوں کے مبینہ واقعات حقیقت پر مبنی نہےں اور انہےں پاکستان مخالف عناصر نے اپنے منفی عزائم کی تکمیل کےلئے گھڑا ہے ۔یاد رہے کہ اس سے پہلے گلزار امام شمبے مرکزی دھارے میںشامل ہوئے تھے۔قومی دھارے میں شمولیت کے ذریعے امن کو اپنانا، ریاست اور اداروں کی پالیسی ہے جس کے ذریے پاکستان میں ہم آہنگی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔سنجیدہ حلقوں کے مطابق یہ اسٹریٹجک اقدام دیرپا امن، افہام و تفہیم کو فروغ دینے اور ملک و قوم کی تعمیر نو کا ضامن ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے