ڈاکٹر انعام الحق جاوید لفظوں کے جادوگر تو ہیں ہی ساتھ میں مخلص دوست،ہمدرد انسان اور خوبصورت سیرت سے مالا مال بھی ہیں جو ان سے ایک بار مل لیتا ہے پھر بار بار ملنے کی حسرت اسکے دل میں پیدا ہوتی رہتی ہے آجکل کے غم زدہ ماحول میں انکی شاعری چہروں پر شگفتگی لے آتی ہے انکے ”لفظ ” پڑھے ہی نہیں جاتے محسوس بھی کئے جاتے ہیں یہ کبھی رلاتے ہیں کبھی ہنساتے ہیں تو کبھی مرہم بن جاتے ہیں اِن کی نغمگی اگر کانوں میں رس گھولتی ہے تو نشتر بن کردل چیر بھی دیتی ہے الفاظ وہ نہیں جو دل سے نکلیں بلکہ الفاظ وہ ہیں جو دل میں اتریں یہی وجہ ہے کہ انکی کا ساتھ میسر ہو نہ ہو انکی خوبصورت شاعری کے الفاظ ہمیشہ ساتھ رہتے ہیں انکی شاعری کے اندر چھپے ہوئے پیغامات کا میں اگر مختصر سا خلاصہ پیش کر سکوں تو بس اتنا سا ہی ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے لفظ ہیرے کی طرح ہوتے ہیں جس رخ سے دیکھیں ایک نئے رنگ میں مسحور کرتے ہیں احساس کو چھو جائیں تو پھول سے بھی زیادہ نرم ونازک نقصان پہنچانے پر آئیں تو جان لے کر ہی چھوڑتے ہیں نرم لہجے سے ہمیشہ مضبوط اور دیرپا رشتے تخلیق پاتے ہیں اس لیے اپنے رشتے داروں ماتحتوں، چھوٹوں بڑوں کے ساتھ اچھے الفاظ سے مخاطب ہوا کریں اچھے لہجے اچھے الفاظ آپ کی زندگی کا آئینہ ہوتے ہیں اور یہی ”اللہ رب العزت” کی رضا اور خوشنودی کا باعث بنتے ہیں اگر کسی کی مسکراہٹیں آپ کے وجود سے وابستہ ہیں تو یقین کریں آپ کا وجود قابلِ رشک ہے وعدوں کو وفا کرنے کا ہنر بہت کم لوگوں میں ہوتا ہے اور یقین کریں ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی زندگی وفا کا بہترین نمونہ ہے اسی لیے تو انکے ساتھ دوستی کو فخر سمجھتا ہوں کہ زندگی کی شراکت داری کسی ایسے انسان سے ہے جو اسں وقت بھی ساتھ نبھانا جانتا ہے جب زندگی آپ کے لئے چیزیں مشکل سے مشکل ہوتی جارہی ہوں اور خدا کا شکر ہے کہ ہمارے پاس ڈاکٹر انعام الحق کی شکل میں ایک ایسی نایاب اور بہت قیمتی چیز ہے جو بہت کم لوگوں کے پاس ہوتی ہے اللہ وہ چیز بس انہیں دیتا ہے جنہیں پسند کرتا ہے اور اپنے قریب کرنا چاہتا ہے پتہ ہے وہ کیا ہے؟ دوسروں کی تکلیف کا احساس اور وہ احساس ڈاکٹر صاحب کی کتاب کلیات میں بھی موجود ہے جن میں انکا کہنا ہے کہ
ہر وہم کوپکڑ کر ہوا میں اچھال دو
مرنے کے بعد کیا ہے یہ دل سے نکال دو
پھرآ بیٹھ کرکہیں کرلیں مذاکرہ
دوں گا ہر اک جواب تم اپنے سوال دو
ڈاکٹر صاحب نے کتاب کے سرورق پر اپنی خوبصورت تصویر کے ساتھ ساتھ اپنی چار کتابوں ساتویں سمت،زندگی کے صحرا میں،جزیرے میں سمندر اور آخر کب تک کی تصویریں بھی سجا رکھی ہیں اور سب سے بڑھ کر انہوں نے اپنی کتاب کا انتساب اس شخصیت کے نام کررکھا ہے جسے میں بھی اپنا روحانی مرشد سمجھتا ہوں سینٹر عرفان صدیقی بھی کمال کے لکھاری ہیں کالج دور سے انہیں پڑھتا آیا ہوں اور اب تک انہیں پڑھ رہا ہوں لکھتے ہیں تو خوب لکھتے ہیں انکے الفاظ کے نشتر وہ کنکریاں پھینکتے ہیں جو عباس اطہر کے بھی بعض اوقات بس میں نہیں ہوتا تھا ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب جناب عرفان صدیقی صاحب کے نام کرکے اپنا حق تو ادا کردیا ہے۔ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی کی شاعری نہ صرف ہم جیسے ڈھلتی عمر کے نوجوانوں کی زندگی میں امیدکا دیا ہے بلکہ بچوں نے بھی انکی شاعری پر دائرے لگا رکھے ہیں میرا بیٹا محمد ریان ابھی ابھی چھٹی کلاس میں پہنچا ہے اس نے ڈاکٹر صاحب کی کتاب کلیات کے بہت صفحے نشان زدہ کردیے ہیں اور اکثر رات کو مجھے وہ انکی ایک غزل سناتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی شاعری بچوں میں بھی بے حد پسند ہے اگر حکومت انکی شاعری کو سلیبس کی کتابوں میں بھی شامل کردے تو یہ بچوں کیلئے بھی بہت اچھا ہو جائیگاتعلیم کا ذکر ہو اور وفاقی سیکرٹری تعلیم محی الدین وانی کا ذکر نہ ہو یہ ہو نہیں سکتا کیونکہ تعلیم کے شعبہ میں جو انقلاب وانی صاحب نے پیدا کردیا وہ آج تک نہیں ہوسکا قیام پاکستان سے لیکر آج تک بچوں کی مفت تعلیم وہ بھی اس لیول کی جو ایک عام انسان سوچ بھی نہیں سکتا وہ وانی صاحب نے اسلام آباد میں عملی طور پر شروع کردی ہے وانی صاحب کی خدمات ہماری اس نسل کےلئے ناقابل یقین عمل ہے جنہوں نے کل بڑے ہوکر ملک کی خدمت کرنی ہے میں سمجھتا ہوں کہ اسلام آباد میں اس وقت صرف تین ہی اہم شخصیات ہیں جو ملک وقوم کی خدمت میں مصروف ہیں ان میں وفاقی محتسب جناب اعجاز قریشی،وفاقی سیکرٹری تعلیم جناب محی الدین وانی اور ہر دلعزیز شخصیت ڈاکٹر انعام الحق جاوید ان تینوں کی شخصیات اور خدمات ناقابل فراموش ہیں کاش ہمارے باقی کے افسران بھی انہی کے نقش قدم پر چل پڑیں تو پاکستان کی تقدیر بل جائیگی میں بات کررہا تھا ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی کلیات میں موجود شاعری کے الفاظ حقیقت میں بول کر بتاتے ہیں کہ کب کچھ ہوگا شائد اسی لیے انہوں نے اس پر پوری غزل لکھ دی۔
تم کہتے ہو سب کچھ ہوگا
میں کہتا ہوں کب کچھ ہوگا
بس اس آس پہ عمر گزاری
اب کچھ ہوگا،اب کچھ ہوگا
کچھ بھی نہ ہونے پر یہ عالم
کیا کچھ ہوگا،جب کچھ ہوگا
ہم سمجھے تھے،تم کو،ہم کو
دیکھ کے جان بہ لب کچھ ہوگا
لیکن اب تو یوں لگتا ہے
مرجائیں گے تب کچھ ہوگا
ڈاکٹر صاحب کی کتاب کلیات کے حوالہ سے صحافت کی پہچان جناب مجیب الرحمن شامی صاحب نے زندہ جاوید شاعری،ڈاکٹر خورشید رضوی نے خیر مقدم،ڈاکٹر زاہد منیر نے تخلیقی عمل کی پراسراریت،حامد میر نے واہ ڈاکٹر صاحب واہ،جاوید چوہدری نے ڈاکٹر انعام الحق جاوید مظہر برلاس نے پھول اور خوشبو کے راستے،ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد نے شاخ ثمر بار اورسلیم اختر نے ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی سنجیدہ شاعری ایک جائزہ کے نام سے خوب لکھا ہے اور عرض شاعر میں ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے تو کمال ہی کردیا جس میں انہوں نے اپنے بہت سے دوستوں کا ذکر کیا تو ہی پر محسن صحافت جناب عطائالحق قاسمی صاحب کو بھر پو ر ذکر بھی کیا قاسمی صاحب واقعی ہمارے آج کے ہیرو ہیں جنکی نظر ڈاکٹر صاحب کی غزل کا ایک شعر۔
روح جس طرح جان میں گم ہے
دل کسی مہربان میں گم ہے