انتہائی قابل احترام جناب سراج الحق صاحب کا ایک بیان میڈیا پر آج بھی دیکھنے کو ملا اورجو گاہے بگاہے چلتا رہتا ہے فرماتے ہیں لنگر خانے نہیں، کارخانے چاہئیں۔بات تو انکی سو فیصد درست ہے اور یہ بھی درست ہے کہ چینی ضرب المثل کے مطابق لوگوں کو مچھلی نہیں بلکہ مچھلی کا جال پکڑانا چاہئے تاکہ وہ بھکاری بننے کی بجائے خود ایک شکاری بن کر اپنا پیٹ بھریں اور قوم کا بھی، لیکن اپنے اس قول میں قائد محترم نے قافیہ ردیف تو ٹھیک ملایا اور ایک اچھی مثال پیش کرنیکی سعادت بھی حاصل کر لی، لیکن عمران خان پر بلاوجہ تنقید کرنے سے پہلے آپ شاید اپنے ہی ملک کے زمینی حقائق کو نظر انداز کر بیٹھے، وہ یہ بھول گئے کہ لاتعداد بےروزگار، بے یارو مددگار اور ہزاروں کی تعداد میں بے آسرا خانہ بدوش افراد کس طرح سڑکوں پر بغیر کسی چھت کے دھوپ ہو یا چھاو¿ں، آندھی یا طوفان وہ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ کیسے جھگیوں، بڑے بڑے پلوں کے نیچے اور درختوں کے سہارے رات دن گزارتے ہیں، بے روزگاری کا آپ انڈکس بھول گئے جو اسوقت شماریات والے بتا رہے ہیں یا آپ بھی دوسروں کی طرح حصول اقتدار کی جنگ میں یہ بھول گئے کہ اسوقت ملک میں لاکھوں افراد بے روزگار اور کروڑوں گھروں کی کمی ہے اور وہ شاید یہ بھی بھول گئے یا انہیں کسی غلط فہمی یا خوش فہمی نے آ گھیرا کہ ہم کسی ترقی یافتہ ملک میں رہتے ہیں، جہاں ہر ایک کو سوشل سیکورٹی الاونس، گھر بار اور ہر قسم کا تحفظ وہاں کی سٹیٹ اپنے کندھوں پر لے لیتی ہے، ڈالروں کی یہاں ریل پیل ہے وہ یہ بھول گئے کہ اسوقت پاکستان میں فی کس آمدنی صرف دو، جناب صرف دو ڈالر یومیہ بنتی ہے اور لاکھوں بے روزگار بغیر دہاڑی خالی ہاتھ واپس گھروں کو لوٹ آتے ہیں، وہ اس بات کو بھی نظر انداز کر بیٹھے کہ مزدوری کی غرض سے لاہور اور اس جیسے بڑے شہروں میں مکانوں کے کرائے ایک عام مزدور کی اوقات سے میلوں نہیں کوسوں دور ہیں اور یہ بے چارے دن کو کام ملتا یا خالی لوٹتے ہیں یہ تھک ہار کر مجبورا عمران خان ہی کی پناہ گاہوں اور لنگر خانوں کو اپنا واحد آسرا سمجھ کر یہاں اپنا پیٹ بھی بھرتے اور رات بھی گزارتے۔ جناب ، بغض عمران اور اپنے سہولت کاروں کی خوشنودی میں آپ ایک اچھے کام کو بھی تنقید کا نشانہ بنا کر آپ عمران خان کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو چھوٹا ثابت کر رہے ہیں۔یقین فرمائیں۔ ہزاروں لوگ ان روایتی فیملی لمیٹڈ پارٹیوں اور کرپٹ سیاستدانوں کی لوٹ مار سے تنگ آ کر کسی اچھی، مخلص اور صالح قیادت کی تلاش میں ہیں اور یہی وجہ ہے آپ جیسی ایک قدیم سیاسی جماعت کے ہوتے ہوئے جسکو اکثر مذہبی طبقوں کی بھی حمایت حاصل ہے، ایک مختصر سے عرصے میں کروڑوں لوگ آج عمران خان کے نظرئیے پر لبیک کہہ چکے ہیں، جبکہ آپ وہیں کے وہیں ہیں، اسکی وجہ ۔ عمران خان کا نظریہ، اسکی سوچ کافی حد تک ان سب سے مختلف ہے۔ یہ درست ہے کہ جماعت اسلامی کو ہزاروں لوگ چاہتے ہیں جن میں لاتعداد ہمارے اپنے دوست احباب بھی ہیں اور آج کے مخصوص حالات میں اسمیں تیزی سے اضافے کا بھی امکان ہے، لیکن اگر آ پ بھی اس طرح کی سستی بیان بازیاں اور سیاسی چٹکلے چھوڑتے رہیں گے تو لوگ آپ سے مایوس ہوں گے، بہت سے رجوع کرنیوالے آپ سے دور ہو جائیں گے۔ اسلئے آپ سے ہم توقع رکھتے ہیں کہ آپ قوم کو ان سب پارٹیوں سے ایک بہت ہی اچھوتا اور بہتر پروگرام دیں گے اور بجائے اپنی ہی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کے یا بجائے ایک اچھے کام پر بلاوجہ تنقید کرنی کے آپ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ اور دوسروں کو خوش کرنے کے بجائے ہمیشہ قانون اور آئین کا ساتھ دیں گے۔ کارخانے اس ملک میں لگتے ہیں جہاں عمومی حالات نارمل ہوں، جناب جہاں امن ہوتا ہے وہاں سرمایہ کاری آتی ہے اور کاروبار بھی چلتا ہے، یہاں تو حالات ایسے نہیں تھے، پیسے پیسے کے ہم محتاج تھے، سابقہ حکومت دیوالیہ کے قریب ملک چھوڑ کر گئی تھی ہزاروں کارخانے بند اور فیکٹریوں پر تالے پڑے تھے۔ عمران خان کے دور میں کیا کرونا جیسی عالگیر وبا بھوک افلاس بے روزگاری ساتھ لائی تھی یا امن چین اور خوشحالی؟؟ ان حالات میں وہ اپنے بد ترین مالی حالات میں اگر بھوکوں کو کھانا اور بے گھروں کو ایک عارضی چھت دلوا رہا تھا تو اسمیں اسکا کونسا قصور تھا جو آجکل آپ سیاسی بیان بازی کے زریعے اسے کیش کروانا چاہتے ہیں اور عمران خان پر بلاوجہ تنقید کرنے کے کیا آپ یہ بھی بھول گئے خلیفہ دوئم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مشہور قول کہ میری خلافت میں دجلہ کے کنارے اگر ایک کتا بھی پیاسہ مر گیا تو مالک کے ہاں شاید میری بخشش نہ ہو سکے۔