کالم

لہو لہو … غزہ

غزہ کا نام لیتے ہی آنکھوں کے آگے ظلم و بربریت اور یہود کی مکارانہ وسفاکانہ چالوں کا وہ نقشہ سامنے آجاتا ہے کہ ہاتھ کچھ مزید لکھنے سے لرزنے لگتے ہیں اور آنکھیں آنسوں کی جھڑی لگا دیتی ہیں۔سمجھ نہیں آتا کہ لکھنے والے کیسے لکھ لیتے ہیں، بولنے والے کیسے ان لرزہ خیزمظالم کا تذکرہ کر لیتے ہیں اور سننے پڑھنے والے کیسے یہ سب کچھ برداشت کر لیتے ہیں۔روزانہ کی خبریں غزہ میں نت نئے طریقے سے آزمائے گئیتشدد کے ہتھکنڈوں کی کہانی سناتی ہیں اور مجھ سمیت کئی کمزور دل مسلمانوں کو اشکبار کر دیتی ہیںمگر اسرائیل نہ تو ظلم سے ہاتھ کھینچ رہا ہے اور نہ ہی دنیا اس معاملے میں بیانات و مذمت سے نکل کر عملی اقدامات اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔اسلامی ممالک خاص طور پر عرب ممالک تو کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے امریکی سامراج کی خوشنودی کیلئے لفظی مذمت سے بھی گریز کر رہے ہیں۔اسرائیل ، 29 نومبر 1947 کے اقوام متحدہ کے تقسیم فلسطین منصوبے کے تحت بننے والا ایک چھوٹا سا صیہونی ملک جسکی آزادی کا اعلان14 مئی 1948میں کیا گیا….. پھر اس نے اپنی سرحدوں کو پھیلانے اور مسلم ممالک خاص طور پر فلسطین کے نہتے لوگوں کی زمین ہتھیانے کی غرض سے ہر ظالمانہ عمل اپنانے سے گریز نہ کیا۔ایسے میں عربوں نے اسرائیل کو محدود کرنے کیلئے جنگ کی کوشش کی مگر ناقص منصوبہ بندی، انگریز سامراج پر انحصار، غیر مسلم طاقتوں کی اسرائیل کی مدد اور جدید ہتھیاروں کی کمی نے نہ صرف عربوں کو شکست کا سامنا کرایا بلکہ اسرائیل کی مضبوطی کے ساتھ ساتھ اسکے رقبے میں اضافے کا سبب بھی بنا اور فلسطین کے زیادہ تر حصے پر اسرائیل کا راج قائم ہوگیا۔پھر اس بپھرے ہو ئے جانور کو کوئی لگام نہ دے سکااور نہ عربوں کو اسرائیل کے سامنے کھڑا ہونے کی ہمت ہوئی اور پھرعربوں کی ناک تلے اسرائیل نہ صرف علم، سائنس ، زراعت ، صنعت اور عسکری ترقی کی بلکہ اپنی سرحدوں کے اضافے کے لیے کمزور اور نہتے فلسطینیوں کو بے گھر کرنے اور انکے خون سے اپنے ہاتھ رنگتے ہوئے جائیدادیں اور زمین ہڑپ کرنے میں ملوث رہا اور اب تک ہے۔عربوں سمیت دنیا فلسطینیوں کو کوئی تیسری مخلوق سمجھتے ہوئے آنکھیں بند کیے بیٹھی ہے۔ہاں کبھی کبھار انسانیت کے نام کی آبیاری کیلئے کوئی مذمتی بیان یا کوئی قرارداد وغیرہ دنیا کے کسی کونے سے سامنے آجاتی اور دو دن کے تذکرے کے بعد لمبی خاموشی۔آج اسرائیل فلسطین میں ایک کونے سے دوسرے تک پھیلا ہوا اور فلسطین دو ٹکروں مغربی کنارہ اور غزہ کی صورت میں اسرائیل کے ظلم و بربریت کے سائے میں اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے. جن میں غزہ تو شاید ہی پہلی حالت میں دوبارہ دیکھا جا سکے۔غزہ کا موجودہ بحران فلسطینیوں کی مسلسل صبر و برداشت کا پیمانہ لبریز ہونے پر انکی نمائندہ تنظیم حماس کے 23 اکتوبر 2023 کے اسرائیل پر حملے سے شروع ہوا اور پھر حماس کے خاتمے اور اسرائیل کی حفاظت کے نام پر خون و جبر کی وحشیانہ تحریر مسلسل لکھی جا رہی ہے. دنیا نے دیکھا کہ کس طرح ایک طاقتور اور جدید اسلحے سے لیس فوج دنیا کی بڑی کفر طاقتوں کی حمایت اور سپر پاور امریکہ کی بھرپور مدد سے نہتے مسلمانوں پر چڑھ دوڑی. جدید ترین لڑاکا طیاروں سیفضائی حملے ، میزائل، بمباری ، پھر ٹینک، بکتر بند گاڑیاں اور بندوقوں سے اگلتے آگ کے شعلے کس پر۔نہتے لوگوں پر، عورتوں پر، بچوں پر، نوجوان پر، بوڑھوں پر۔شہادتیں، زخمی، بھوکے پیاسے، یتیم، بیوائیں ، معذور غرض غزہ میں بچ جانے والا ہر ایک شخص ظلم کی نئی تصویر اور ہر شہید جبر کی الگ داستان۔شہیدوں کو سنبھالنے والا کوئی نہیں، زخمیوں کی مرہم پٹی ناممکن، راشن پانی کی قلت…. ایک ایک خاندان کے کئی کئی جنازے، ماں باپ بچوں کی لاشوں پر ماتم زدہ۔کئی بچے ماں باپ کو اپنے ہاتھوں دفنا چکے۔بہنیں بھائیوں کی لاشیں دیکھ رہی ہیں ۔ بھائی بہنوں کو کھلے آسمان تلے بھوک اور خوف سے کانپتا دیکھ رہیے ہیں۔دن رات بارود کی بارش، ، پناہ گاہیں بھی تندہی سے تباہ کی گئیں، یہاں تک کہ اقوام متحدہ کی دی گئی پناہ گاہوں کو بھی نہ چھوڑا ۔ ہسپتالوں کو بھی نہ بخشا گیا بلکہ ہسپتالوں پر تو زیادہ بارود برسایا گیا کہ کوئی زندہ نہ بچے۔ ایمبولینس کی گاڑیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا. ان سب مظالم کے ساتھ روزانہ ایک علاقہ خالی کرنے کا حکم الگ ایک قیامت۔کمزور، لاچار، زخمی اور بے سرو سامان فلسطینی اپنی جانیں بچانے کیلئے پیدل بے یارو مددگار میلوں سفر طے کر کے کسی ٹھکانے پر ذرا سستانے کو رکتے ہیں تو فورا یہ علاقہ خالی کرنے کا حکم جاری ہوتا ہے۔، ریڈکراس کی گاڑیوں اور امدادی ٹرکوں میں اسلحہ بردار فوجی بھیجے گئے جنھوں نے دھوکے سے خون کی ہولی کھیلتے ہوئے غزہ کے مسلمانوں کو شہید کیا۔اتنا ہی نہیں بلکہ اہل غزہ کی مدد کو جو بھی آگے بڑھا سب کو سبق سکھایا گیا. لبنان و حزبِ اللہ اور یمن کو تباہ و برباد کر کے غزہ حمایت کی سزا دی گئی۔لگے ہاتھوں ایران کو بھی بتا دیا کہ اہل غزہ کی قربت ایران کیلئے تباہی لائے گی اور عربوں کو اس سب کھیل کے سب سے بڑے حمایتی اور مدد گار امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے دورے اور تجارت کی ہڈی سے خاموش کرادیا۔نجانے یہود کی ملک کا رقبہ بڑھانے کی خواہش کتنی مسلم جانیں مزیدلے گی اور کب تک مسلم ممالک کی سرحدیں سکڑتی رہیں گی ۔ اسرائیل کی خوشنودی کیلئے ہمسائے میں موجود شام کے حالات خراب کیے گئے اور پھر بشارالاسد حکومت کا خاتمہ کرکے ایک جہادی تنظیم کے سربراہ کو صدر کے روپ میں شام کا سربراہ بنادیا گیا مگر اس حکومت تبدیلی کے دوران اسرائیل کو گولان پہاڑیوں اور ارد گرد کے علاقہ پر قبضے کا تحفہ دیا گیا. مزید علاقے کے حصول کیلئے اسرائیل اور امریکہ کے تعاون سے شام میں ایک نئی خانہ جنگی شروع کرا دی گئی ہے جو صرف اور صرف اسرائیل کو فائدہ دینے کا بہانہ ہے.ادھر غزہ ایک کھنڈر میں تبدیل ہونے کے باوجود تقریبا ستر لاکھ شہدا (خبر رساں اداروں کے مطابق)اور لاکھوں زخمیوں سے بھرا پڑا ہے۔مزید یہ کہ کچھ عرصہ پہلے ایک ماہ کی جنگ بندی کا ڈرامہ کھیلا گیا۔اس بہانے بکھرے ہوئے فلسطینیوں کو اکٹھا کیا گیا اور صیہونی افواج کو سستانے کے بعد اہل غزہ پر تازہ دم ہو کرٹوٹ پڑنے کا بندوبست کیا گیااوراب بھوکے اور بے آسرا لوگوں کی امداد کے نام پر اکٹھا کیا جاتا ہے اور پھر روٹی کو ترستے ان مسلمانوں کاقتل عام کرایا جا رہا ہے۔دنیا خاموش ہے۔دنیا اندھی گونگی بہری بن چکی ہے۔یہود مسلمانوں کی زندگیوں سیکھیل رہے ہیں، امریکہ بہادر اس سب ظلم میں اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے۔مگر دنیا خاموش ہے۔دنیا خاموش ہے۔اس سب ظلم و جبر میں فلسطینی صدر محمود عباس کہاں ہیں۔خاموش۔منظر عام سے غائب ۔ انکی خاموشی سے صاف ظاہر ہوتا ہے اہل غزہ کی نسل کشی میں جناب کی رضامندی شامل ہے. بات کڑوی ہے مگر یوکرین روس جنگ میں یوکرینی صدر کی اپنے ملک کی بقا کیلئے بھاگ دوڑ اور اقوام عالم سے ہر طرح کی حمایت اور مدد کے حصول کی کوششیں سب کے سامنے ہیںمگر فلسطینی صدر اہل غزہ پر ڈھائے جانے والے ان مظالم پر بیانات تو کجا منظر سے ہی غائب ہیں۔کچھ اتا پتا نہیں موصوف کا۔آخر میں اقوام متحدہ، عالمی ادارے ، دنیا کے 195ممالک جن میں خاص طور57اسلامی ممالک ہیں جو 22000 کلومیٹر رقبہ کے حامل تقریبا 97لاکھ آبادی کے ملک اسرائیل کے سامنے جس خاموشی اور امریکی خوشنودی کے حصول میں تماشہ دیکھنے بیٹھے ہیں اس پر انسانیت بھی شرمندہ ہے. دنیا قبرستان بن چکی ہے۔ایک خوفناک قبرستان۔بہت بڑا قبرستان۔ زندہ صرف اہل غزہ ہیں۔دن رات موت کا جوانمردی سے سامنا کرتے اور ہمیشہ زندہ رہینگے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے