کالم

مائی ڈئیر سر

ہم گزشتہ 70/75سال سے سنتے آئے ہیں کہ پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ان سالوں میں ہم نے جمہوریت بھی دیکھی اور آمریت بھی مگر نہ جانے یہ نازک دور ختم کیوں نہیں ہو رہا۔ ہمارے تمام سرکاری کاروباری ادارے تباہ و برباد ہو چکے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے بدنامی کا شکار ہیں۔ عوام غربت کی چکی میں پس پس کر مایوسی کی انتہا تک پہنچ چکے ہیں۔ سرکاری تعلیمی ادارے بے نام، محض قوم پر بوجھ، صحت کے ادارے محض تنخواہیں اور سہولتیں دینے والے، سیاستدان صرف اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں اور ان سب خامیوں کی نشاندہی کرنے والا میڈیا اس وقت ایک اتنی بڑی قوت ہے جو سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ بنا سکتا ہے۔ تاریخ کے اسی نازک دور میں آپ سے بھی بڑے ہی طریقے اور سلیقے سے باریک وار داتیں ہو رہی ہیں سب سے پہلے آپ کی ترقی اور تعیناتی کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ بتایا گیا کہ پہلی رکاوٹ تو آپ کا ادارہ ہی تھا۔ دوسرا آپ کی ترقی کی فائنل اپروول ایک ایسے شخص نے دی جو بذاتِ خود ملکی عدالتوں کو مطلوب ہے۔ بلکہ یہاں تک تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ آپ آئندہ ذاتی دوست کی حیثیت سے نوکری کریں گے۔ 2018 کے انتخابات کے بعد حکومت کی تمام جماعتیں اس وقت کی حکومت کو ناجائز اور غیر قانونی کہتی رہیں اور الزام سیدھا سیدھا آپ کے ادارے پر تھا جبکہ آپ خود بھی اس وقت ایک کلیدی عہدہ پر فائز تھے۔ عدم اعتماد کے بعد جب وہ حکومت رخصت ہو گئی تو اس نے بھی ہدف آپ کے ادارے کو بنایا اور میر جعفر اور میر صادق جیسے نہ جانے کیسے کیسے القابات دئیے۔ ترقی کے بعد آپ نے کمال کی خاموشی رکھی ہوئی ہے اس کو بھی کمزوری سمجھا گیا اور یہ تاثر دیا جیسے آپ کے ادارے کے اندر لوگ آپ سے ناخوش ہیں۔ اسی دوران 9مئی کا واقعہ رونما ہوا ۔ پوری قوم نے اس کی مذمت کی۔ ایک سیاسی جماعت کے کچھ لوگوں کا ضمیر جاگ اٹھا اور کہا یہ جاتا ہے کہ ان کی پریس کانفرنسوں کے پیچھے بھی آپ کے ادارے کا ہاتھ ہے۔ 9مئی کے بعد ہر فورم سے اعلانات ہوئے کہ اس کارروائی کے محرکین کو قانون کے مطابق شدید سزا دی جائے گی مگر آج تک وہ بھی نہ ہو سکا کیوں؟ موجودہ حکومت اس سیاسی بوجھ کو اپنے کندھوں پر ڈالنے کو تیار نہیں وہ حیلے بہانوں سے آپ کے ادارے کو آگے کرنا چاہتی ہے تاکہ آنےوالے دنوں میں اگر سیاسی مسائل پیدا ہوتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو بری الزمہ قرار دے سکیں۔ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ وہ حکومت سے جان چھڑانا چاہ رہے ہیں تاکہ کیئر ٹیکر ایسے مشکل فیصلے کریں اور بعد کی صورت حال کا تقاضا کچھ اس قدر ہوا تو سب ایک کنٹینر پر اکٹھے ہو سکیں۔ گذشتہ چند ماہ میں الیکشن کے حوالے سے سپریم کورٹ نے کچھ فیصلے دئیے۔ وزیر قانون، وزیر دفاع، وزیر داخلہ، وزیر قانون سمیت سب نے ان فیصلوں کو ماننے سے انکار کر دیا اور پھر پارلیمنٹ کی آڑ میں نہ جانے اور کیا کیا فیصلے کیے۔ اگر سب کچھ ایسا ہی ہے تو پھر ”شیر”بنیں اور مشکل فیصلے کریں۔ مگر یہ ایسا نہیں کریں گے۔ میرا تعلق پوٹھوہاری علاقے سے ہے یہاں تقریبا ہر گھر میں ایک سابق فوجی رہتا ہے میں آپ کو دیانتداری سے عرض کرتا ہوں کہ چند ریٹائر ڈ جرنیلوں کو سابق فوجی نہیں کہتے، لاکھوں ریٹائرڈ سپاہی سے افسر تک اپنی فوج اور اس کے چیف سے ویسے ہی محبت کرتے ہیں جو ماضی کے اوراق میں درج ہے یہ ایک بار پھر اپنی جان دے دیں گے مگر اپنی فوج پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ سیاسی طور پر ابھی بھی ایک جماعت کا ووٹ بینک بہت بڑا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ کم از کم حکومت کی موجودہ سیاسی جماعتوں کا ووٹ بینک بالکل صفر ہے یہ کسی صورت عوام میں جانے کی پوزیشن میں نہیں، سندھ میں تو بیڑا ہی غرق ہے۔ کے پی کے میں کیئر ٹیکرز نے کرپشن کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔ ہم نے پچھلے کالم میں کچھ گزارشات کی تھیں۔ ابھی ہمارے کالم کی سیاسی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ اقوام متحدہ انسانی حقوق کے 53ویں اجلاس میں اسرائیل کی نمائندہ خاتون نے سیاسی کارکنوں پر تشدد بارے بات کر کے 70سالہ تاریخ میں پہلی بار ہمارے ملک کے اندرونی معاملات پر دخل اندازی کی اور کمال یہ ہے کہ اتنی بھاری وزارت خارجہ ہونے کے بعد ہماری طرف سے کوئی جواب نہ دیا گیا۔ عین ممکن ہے کہ وزیر خارجہ اس انتظار میں ہوں کہ یہ بھی آئی ایس پی آر کا کام ہے۔
مائی ڈئیر سر اپنے ساتھیوں کو بٹھائیں، کھل کر ساری چیزیں زیر بحث لائیں۔ آپ مشکل فیصلے کریں ایسے فیصلے جو غریب عوام کےلئے ہوں، ایسے فیصلے جو مظلوموں کےلئے ہوں، ایسے فیصلے جو انصاف کی خاطر دھکے کھانے والوں کےلئے ہوں۔ میں پورے یقین اور اعتماد سے گزارش کر رہا ہوں کہ خدارا اس نام نہاد میڈیا کی باتیں سننا چھوڑ دیں یہ محض گمراہ کر رہے ہیں۔ یہ غلط تصویر پیش کر رہے ہیں۔ آپ کا ادارہ مضبوط ترین ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے