کالم

مارکس اور ہندوستان

ہندوستان پر اپنے مضامین میں مارکس نے انگریزوں کی ہندوستان میں حربی حکمت عملی کا بھی تھوڑا بہت ذکر کیا ہے۔جو چیز مارکس کو حیران کرتی ہے،وہ یہ ہے کہ انگریزوں نے ہندوستان پر ہندوستان ہی کے فوجیوں کے ذریعے ، ہندوستان ہی کی اپنی دولت کے بل بوتے پر حکومت کی۔ مارکس اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے کہ ”۔اگر ہمیں ہندوستان کی گذشتہ تاریخ سے متعلق کچھ بھی علم نہ ہوتا، تو کیا صرف یہی ایک واقعہ اس کے ماضی پر روشنی ڈالنے کے لئے کافی نہیں کہ اس وقت بھی انگریزوں نے ہندوستان کو ہندوستانی فوجوں کے ذریعے ہی غلامی میں رکھا ہوا ہے، اوران فوجوں کے اخراجات بھی ہندوستان سے ہی پورے کئے جاتے ہیں۔ ان حالات میں ہندوستان غلامی سےکس طرح بچ سکتا تھا ۔” (ص105) مارکس نے صورتحال کے جس رخ کی طرف اشارہ کیا ہے وہ بیسویں اور اکیسویں صدی میں بھی اس خطے میں امریکی اسٹریٹیجی کا حصہ رہا ہے اور کسی حد تک اب بھی ہے،یعنی بظاہر آزاد و خودمختار ملکوں کی افواج کو اپنی ڈیزائن کردہ جنگوں کےلئے استعمال کرنا۔یاد رہے کہ برصغیر میں برطانوی استعمار کا حقیقی جانشین وہی امریکہ ہے،جس کے ایک اخبار کےلئے مارکس مضامین رقم کرتے تھے۔مارکس کے مضامین کا یہ مجموعہ ہندوستان کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی حربی، سیاسی ، سماجی اور معاشی حکمت عملیوں کے تجزیے پر مشتمل ہے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہندوستان کے حوالے سے بہت سارے” طریقہ واردات” تاج برطانیہ نے بھی اسی طرح سے جاری رکھے تھے۔جیسے ترتیب اور یک جہتی کی بجائے افتراق اور تقسیم کو ترجیح دینا، خودمختار ریاستوں میں نالائق اور ناہنجار حکمرانوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے انہی کی پشت پر چھرا گھونپ دینا، ہندوستان کی مقامی صنعت وتجارت کو مکمل طور پر تباہ کر کے رکھ دینا،یہ ساری حکمت عملی ایسٹ انڈیا کمپنی کی وضع کردہ تھی،جسے تاج برطانیہ کے وائسراوں نے بھی جاری رکھا ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی اسی حکمت عملی کا تجزیہ کرتے ہوئے مارکس لکھتا ہے کہ ” انگلستان کے ذمے ہندوستان میں دوہرے مقاصد کی تکمیل ہے۔ ایک تخریبی اور ایک تعمیری، ایک یہ کہ پرانی ایشیائی سوسائٹی کو تباہ کیا جائے اور دوسرا یہ کہ وہاں مغربی طرز تمدن کی بنیاد رکھی جائے۔انہوں نے ہندوستان کے پرانے دیہی نظام کو مٹاکر، ملکی صنعتوں کو تباہ کر کے اور اس کی تمام عظمتوں کو پامال کر کے ہندوستانی تمدن کے وجود کا ہی خاتمہ کر دیا۔ انگریزوں کے عہد حکومت کی تاریخ اس تباہی کے علاوہ اور کسی بھی بات کی نشان دہی نہیں کرتی۔ تباہی کے کھنڈرات میں سے تعمیر کے نشانات نظر نہیں آتے مگر یہ بات یقینی ہے کہ تعمیر کا آغانہ ہو چکا ہے ۔ ” (ص106)
گویا مارکس اس بات سے اتفاق کرتا ہے کہ انگریزوں نے:الف- ہندوستان کے پرانے دیہی نظام کو بزور ختم کردیا۔معاشرے کی بنیادیں ہی کھوکھلی کرکے رکھ دیں۔اس دیہی نظام کے ساتھ اخلاقیات،تعلیم، اقدار و روایات کا سارا خزانہ بزور برباد کر کے رکھ دیا گیا۔ب – ملکی صنعتوں کو تباہ کر دیا گیا۔ اس ضمن میں انگریز جس حد تک چلا گیا تھا،آج کے دور کا کوئی نوجوان انگریز وہ تفصیلات سن کر شرمندگی ہی سے بے ہوش ہو سکتا ہے۔ج – انگریزوں نے ہندوستان کی تمام عظمتوں کو پامال کر کے ہندوستانی تمدن کے وجود کا ہی خاتمہ کر دیا۔ مارکس اعتراف کرتا ہے کہ؛انگریزوں کے عہد حکومت کی تاریخ اس تباہی کے علاوہ اور کسی بھی بات کی نشان دہی نہیں کرتی۔دراصل برطانویوں نے ہندوستان پر جو حملہ آور بھیجے،ان میں مشنریز بھی شامل تھے، یہ مشنریز کس طرح تیار کیے جاتے تھے،یہ ایک الگ موضوع ہے۔لیکن ہندوستان کے بارے میں جس طرح کا تعارف اور جس طرح کا علم یہ مشنریز انگلستان میں پھیلا رہے تھے،اس سے اندازہ قائم کیا جا سکتا ہے کہ ان لوگوں کےلئے ہندوستان محض خام مال کی منڈی تھااور بس ۔ مارکس نے تو خیر ہندوستان پر اپنے نوٹس اور مضامین 1853ءمیں لکھے تھے،اس زمانے میں انگلستان میں ہندوستانیوں کو کیا اور کس طرح ک سمجھا جاتا ہو گا،یہ تو ایک الگ بات ہے،لیکن باون سال بعد،یعنی نصف صدی کے بعد بھی ہندوستانیوں کے تعارف کس طرح کروایا جاتا تھا اس کی نشاندھی علامہ اقبال نے اپنے قیام انگلستان(1905-1908) کے دوران اسکاٹ لینڈ کے کسی قصبے میں ہجوم کے سامنے ایک چندہ جمع کرنےوالے چرب زبان مشنری کے خطاب کے حوالے سے کی ہے ۔ اقبال کے مطابق ”۔مشنری نے بتایا کہ ہندوستان میں تیس کروڑ انسان آباد ہیں، لیکن ان لوگوں کو انسان کہنا جائز نہیں۔ عادات و خصائل اور بود و باش کے اعتبار سے یہ لوگ انسانوں سے بہت پست اور حیوانوں سے کچھ اوپر ہیں۔ ہم نے سالہا سال کی جدو جہد سے ان حیوان نما انسانوں کو تھوڑی بہت تہذیب سے آشنا کیا ہے ۔ ” (زندہ رود ص142)اب اس سے کم از کم یہ اندازہ تو لگایا ہی جا سکتا ہے کہ برطانیہ میں ہندوستانیوں کے بارے میں عمومی تاثر اور رائے کس طرح ترتیب دی جاتی تھی۔مارکس نے اپنے ان مضامین میںایسٹ انڈیا کمپنی کے حوالے سے انگریزوں کی ہندوستان کے بارے میں پالیسیوں کے اثرات و نتائج کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے ۔ ” ۔ ہندوستان کی سیاسی وحدت جو مغلوں کے زمانے کی نسبت موجودہ دور میں کہیں زیادہ مستحکم ہوگئی ہے۔ اس تعمیر کا اولین سنگ بنیاد ہے۔ وہ وحدت جو پہلے پہل برطانیہ نے ہندوستان پر تلوار کے زور سے ٹھونسی تھی، بجلی اور تار کے ذریعے اور بھی مستحکم ہو جاگی۔ ہندوستان میں برطانوی افسروں کے ماتحت تربیت یافتہ ملکی فوج کا قیام در اصل اس کی آزادی کا سنگ بنیاد ہے۔ اب ہندوستان اتنا کمزور نہیں رہے گا کہ وہ ہر حملہ آور کے سامنے ہتھیار ڈال دہے۔ ہندوستان میں آزاد پریس کا قیام ایشیائی سوسائٹی میں پہلا اقدام ہے اور یہ ہندوستان کی دوبارہ تعمیر میں بہت ممدومعاون ثابت ہو گا۔ ان ہندوستانیوں میں سے جو کلکتہ میں انگریزوں کی زیر نگرانی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ایک نئی جماعت پیدا ہو رہی ہے۔ جو جہاں نظام حکومت کا مفید پرزہ بن سکتی ہے وہاں یورپی سائنس کی بھی دلدادہ ہے۔ بھاپ نے ہندوستان کا یورپ کے ساتھ تعلق قائم کر دیا تھا۔ اور اس طرح اس کی اس محدودیت کا خاتمہ کر دیا ہے جو اس کے جمود کے لئے بہت زیادہ ذمہ دار تھی۔ وہ وقت دور نہیں جب ریلوں اور بھاپ سے چلنے والے جہازوں کی بدولت انگلستان اور ہندوستان کا درمیانی فاصلہ اتنا کم رہ جائے گا کہ اُسے آٹھ دن میں طے کیا جا سکے۔ اس طرح ہندوستان اپنی محدودیت سے نکل کر مغربی دنیا کا ایک حصہ بن جائے گا۔”(ص107/108) مارکس ہندوستان کی جس” سیاسی وحدت ” کے قیام کو انگریزوں کا بڑا اور قابل ذکر کارنامہ سمجھ رہا ہے، کاش مارکس اس مصنوعی سیاسی وحدت کا انجام دیکھنے تک حیات رہتا۔مارکس اپنے مضامین میں انگریزوں کی تقسیم در تقسیم اور ہندوستانی کمیونیٹیز کے باہم اختلافات کو تخلیق کرکے انہیں ہوا دینے کی حکمت عملی کی پردہ پوشی کرنے کی کوشش کرتا دکھائی دیتا ہے۔کیونکہ مارکس جیسے جز رس اور باریک بین تجزیہ کار سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ انگریزوں کی اس پالیسی کو سمجھنے سے قاصر رہا ہو۔یا اگر، جیسا کہ امکان ہو بھی سکتا ہے کہ مارکس یہ سب جانتا اور سمجھتا ہو،لیکن بوجوہ اس پہلو کو نظر انداز کر جاتا ہو؟ ہندوستان کی سیاسی تاریخ کے طالب علموں کےلئے مارکس کے مضامین پر مشتمل اس کتاب کا مطالعہ باری علیگ کی تالیف’کمپنی کی حکومت’ کو پس منظر بنا کر کرنا بے حد ضروری اور مفید معلوم ہوتا ہے۔ اس ضمن میں مارکس کی اصل کتاب کے مکمل اردو تراجم اور دستیاب تراجم کی اشاعت نو کی طرف توجہ دینے کی ضرورت بھی محسوس ہوتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے