کالم

ماں کی دعا جنت کی ہوا

دنیا کی اس تیز رفتار دوڑ میں، جہاں انسان اپنی شناخت اور رشتوں کو بھلانے لگتا ہے، کچھ یادیں، کچھ چہروں کی شفافیت، اور کچھ ہاتھوں کی دعائیں دل کے نہاں خانوں میں چراغ بن کر جلتی رہتی ہیں۔ میری والدہ وہ ہستی جو محض میری ماں ہی نہیں تھیں، بلکہ ایک روحانی رہنما، دعاں کا دروازہ، اور میرے رب سے جڑنے کا ایک لازوال وسیلہ بھی تھیں۔ ان کی شخصیت، ان کا خلوص، اور ان کی ممتا زندگی کے ہر موڑ پر میرے ساتھ رہی۔ آج بھی ان کی یاد دل میں اسی طرح تازہ ہے جیسے کل کی بات ہو۔ میری والدہ، جنہیں ہم پیار سے بے جی کہتے تھے،انتہائی نرم مزاج تھیں۔ ان کی نرمی میں روحانی طاقت، دعاؤں کی تاثیر اور ماں کی بے لوث ممتا تھی۔ وہ ہمیشہ ہماری ڈھال بنیں اور ہر مشکل میں ہمارے لیے دعاگو رہیں۔ ان کی ہر خاموشی میں ایک گہری دعا اور ہر نظر میں ایک انمول پیغام ہوتا تھا۔ جب والد صاحب کی سختی کا سامنا ہوتا تو بے جی اپنی نرمی سے ہمیں تسلی دیتیں، ہمیں حوصلہ دیتیں کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔ بے جی اور والد صاحب کی یہ متضاد لیکن مکمل شخصیات ہمیں زندگی کے ہر پہلو سے آشنا کرتی تھیں۔ والد صاحب ہمیں دنیاوی ذمہ داریاں سکھاتے اور بے جی روحانی سکون اور اخلاقی اقدار کی طرف رہنمائی کرتی تھیں۔ وہ ہمیں ایمان، صبر اور اللہ پر توکل کی تعلیم دیتی تھیں۔جیسے جیسے ہم بڑے ہوئے، زندگی کے تقاضے بدلنے لگے۔ میں نے گوجرانوالہ کو خیرباد کہا اور روزگار کی تلاش میں جدہ کا رخ کیا۔ یہ ایک بہت بڑا قدم تھا، ایک نئی دنیا کا سفر۔ جدہ میں ملازمت کے اتار چڑھا کا سامنا کرنا پڑا، لیکن بے جی کی دعائیں ہمیشہ میرے ساتھ رہیں، ایک مضبوط ڈھال بن کر۔ میں ان سے فون پر بات کرتا تو ان کی آواز میں وہ شفقت اور فکر محسوس ہوتی جو ہزاروں میل دور بھی مجھے تقویت دیتی تھی۔ میری ملازمتوں میں بہت اتار چڑھا آئے، کبھی حالات اچھے ہوتے تو کبھی شدید مالی تنگی کا سامنا کرنا پڑتا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ میں تقریبا ہمت ہار بیٹھا، مگر بے جی کی دعاں نے مجھے سنبھالا۔بے جی کی دعاؤں میں ایک خاص تاثیر تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے رب کے ہاں ان کی دستک فوراً سنی جاتی ہے۔ وہ واقعی اللہ کی ولی لگتی تھیں، ان کی دعاں کی قبولیت کے واقعات کسی روحانی داستان سے کم نہیں۔ ان کی زندگی کے بہت سے ایسے لمحات ہیں جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں۔ ایک ایسا واقعہ یاد ہے جب بے جی میرے پاس جدہ آئیں۔ وہ بڑی فکرمند تھیں اور انہوں نے میرے بھائی سجاد کے بارے میں کہا، "بیٹا! اس کیلئے کچھ کرو، وہ بڑا پریشان ہے۔سجاد کے ویزا کا مسئلہ تھا اور وہ بڑی مشکل میں تھا۔ تمام کوششیں ناکام ہو چکی تھیں اور ایسا لگ رہا تھا کہ اب کوئی راستہ نہیں۔ بے جی کو میں عمرے پر لے گیا۔ جب ہم کعبة اللہ پہنچے اور سونے کے دروازے کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہوئے، میں نے بے جی کو کہا، "بے جی، اب آپ دعا کریں، یہاں تو سب کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔بے جی نے نہایت خلوص اور گریہ و زاری کے ساتھ دعا مانگی۔ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور ان کے ہونٹوں پر سجاد کے لیے التجا تھی۔ اور واقعی، یہ ایک معجزہ تھا؛ اگلے ہی دن ویزا کا بندوبست ہو گیا، اور سجاد صرف پندرہ دن کے اندر اندر جدہ آ گیا۔ یہ محض ایک اتفاق نہیں تھا، یہ بے جی کی دعاں کی تاثیر تھی، بیت اللہ کے سائے میں ان کے یقین کی قبولیت تھی۔ اس واقعے نے میرے ایمان کو مزید مضبوط کر دیا ۔ ایسا ہی ایک اور روحانی لمحہ، جب میری زندگی میں ایک گہری خواہش نے جنم لیا۔ میرے چار بیٹے تھے اور میں ایک بیٹی کی چاہت رکھتا تھا۔ یہ خواہش دل میں کئی عرصے سے تھی اور میں اس کیلئے دعا بھی کرتا تھا۔ میں نے بے جی سے کہا، "بے جی، میرے چار بیٹے ہیں، اللہ ایک بیٹی دیدے۔” بے جی نے نہایت عقیدت سے دعا کی۔ مجھے آج بھی یاد ہے ان کے ہونٹوں پر سجی وہ معصوم مسکراہٹ اور آنکھوں میں جگمگاتا یقین ۔ ان کی دعا کی برکت ایسی ہوئی کہ اللہ نے ان کی دعا کو سنا اور مجھے سات سال بعد ربیعہ جیسی پیاری بیٹی عطا کی۔ یہ صرف میری خواہش کی تکمیل نہیں تھی، یہ بے جی کی دعا کی برکت تھی، ان کی پاکیزہ روح کا انعکاس تھا۔ رب کی طرف سے یہ ایک تحفہ تھا جو میری ماں کی دعاؤں کے طفیل ملا۔جدہ میں میری والدہ اور مریم نواز شریف کے درمیان ملاقات بھی ایک یادگار لمحہ ہے۔ جب مریم نواز شریف جدہ آئیں تو میری والدہ صاحبہ سے ان کی ملاقات ہوئی۔ کسی نے مریم نواز کو بتایا کہ یہ "افتخار کی اماں اللہ والیاں ہیں، ان سے دعا کروائیں ۔مریم نواز شریف نے فوراً میری والدہ صاحبہ سے اپیل کی کہ وہ ان کے والد(نواز شریف)کیلئے دعا کریں۔ انہوں نے میری والدہ سے کہا کہ "ان شا اللہ، تمہارا باپ تمہیں یہاں جدہ میں آ کے ملے گا۔” یہ الفاظ اس وقت ربیعہ کیلئے نہیں بلکہ مریم نواز نے میری والدہ سے کہے تھے، حالانکہ ان کے والد اس وقت اٹک جیل میں قید تھے۔ یہ الفاظ میری والدہ کے لیے کسی حوصلے سے کم نہ تھے، جو ان کے دل کی تسکین کا باعث بنے۔ اعجاز الحق سے بھی میری بے جی کے قریبی تعلقات تھے، جو احترام اور محبت پر مبنی تھے۔ اعجاز الحق اکثر بے جی کے پاس آتے تھے اور ان سے دعائیں لیتے تھے وہ بے جی کو کہتے تھے، "بے جی! آپ صرف افتخار کی بے جی نہیں، میری بھی ہیں، میرے لیے بھی دعا کریں۔” یہ ان کی شخصیت کا کمال تھا کہ لوگ ان سے دلی لگا رکھتے تھے اور انہیں اپنے لیے ایک روحانی سہارا سمجھتے تھے۔بے جی کی دعاؤں کا اثر میری عملی زندگی پر بھی بہت گہرا تھا۔ میں جب بھی کسی نئے پراجیکٹ کا آغاز کرتا یا ملازمت میں کسی مشکل کا سامنا ہوتا، بے جی سے دعا کی درخواست کرتا۔2002میں، جب میں جدہ جیل سے واپس آیا تو میرا حال برا تھا۔ وہ دن میری زندگی کے سیاہ ترین دنوں میں سے تھے۔ جنرل دورانی نے جو سلوک کیا تھا، اس کے زخم گہرے تھے۔ میں ذہنی اور جسمانی طور پر بہت تھک چکا تھا۔ جب میں گھر پہنچا، تو بے جی نے مجھے دیکھا تو ایک لمحے کے لیے پہچانا ہی نہیں۔ یہ منظر میرے دل کو چھلنی کر گیا۔ وہ نئی تنور کے پاس بیٹھیں اور اپنی دیورانی سے کہا، "یہ دشمن ہمیں کیا لینے آیا ہے؟” ان کا یہ جملہ آج بھی میرے کانوں میں گونجتا ہے، اور اس میں چھپا درد مجھے محسوس ہوتا ہے۔اسی لمحے انہیں برین ہیمرج ہوا اور انہیں فوری طور پر پمز ہسپتال پہنچایا گیا۔ وہ 10-12 دن ہسپتال میں بیمار رہیں، اور اس دوران بھی ان کے ہونٹوں پر صرف میرے لیے دعائیں تھیں۔ ان کی یادداشت کمزور ہو چکی تھی، لیکن میرے لیے ان کی فکرمندی میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ ہر لمحے انہیں میری فکر رہتی۔ "میرے افتخار کو گھر بنا کے دو، گاڑی لے دو، اس کا کام مکمل کرو۔” مجھے یاد ہے کہ ہسپتال کے بستر پر لیٹے ہوئے بھی ان کی آنکھیں میری طرف تھیں، اور ان کے دل میں میری خوشحالی کی تمنا تھی۔بے جی کی دعاؤں کا ہی اثر تھا کہ سب کچھ بن گیا، گاڑیاں، گھرلیکن افسوس، میری بے جی اس دنیا میں نہ رہ سکیں۔22 جون کی سخت گرمی، اور بے جی کا جنازہ۔وہ دن قیامت سے کم نہیں تھا۔ مولانا ابو نعیم نوری نے جنازہ پڑھایا۔ ان کی آواز میں بھی غم کا اثر نمایاں تھا۔ پورے شہر میں جنازہ نکلا، ہزاروں لوگ ان کے جنازے میں شریک تھے۔ان کی محبت، ان کی روحانیت، آج بھی ہر محلے دار کو یاد ہے۔بے جی صرف میری ماں نہیں تھیں، وہ ایک عہد تھیں۔ ان کے جانے کے بعد جو خالی پن ہے، وہ کسی شے سے نہیں بھرتا۔ہر تہوار، ہر خوشی کا موقع، ہر مشکل وقت، ان کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔جب بھی کوئی کامیابی ملتی ہے، خواہش ہوتی ہے کہ کاش بے جی کو بتا پاتا۔والد صاحب کا انتقال 1990میں ہوا تھا، یعنی بے جی کی وفات سے 12سال قبل ہی وہ ہم سے جدا ہو چکے تھے۔ وہ دونوں میری زندگی کے دو ستون تھے، جن کے سہارے میں نے زندگی کی ہر اونچ نیچ کا سامنا کیا۔ اب دونوں اس دنیا میں نہیں ہیں، لیکن ان کی یادیں، ان کی تربیت اور ان کی دعائیں ہمیشہ میرے ساتھ رہیں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے