محر الحرام کا مہےنہ عالم اسلام کے شہرےوں کےلئے اےک انتہائی محترم مہےنہ ہے ۔اسلامی کےلنڈر کے پہلے مہےنے کی حےثےت سے بھی اس مہےنے کی اہمےت اور عظمت مسلمہ ہے ۔محرم اےک اےسا مہےنہ ہے جس کا احترام دور جاہلےت مےں بھی کےا جاتا تھا ۔فروغ اسلام ،فروغ صداقت اور فروغ حقانےت کےلئے اس محترم مہےنے مےں اسلامی تارےخ کی نامور ہستےوں نے بے مثال قربانےاں دےں ۔ےہ عظےم قربانےاں پےروان اسلام کو وحدت اور اتحاد کا درس دےتی ہےں ۔نئے اسلامی سال کے آغاز پر وطن عزےز مےں اس امر کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ قومی ےکجہتی کو فروغ دےنے کےلئے ہمہ جہتی ہم آہنگی پےدا کی جائے ۔قومی ےکجہتی کےلئے فرقہ وارانہ ہم آہنگی رےڑھ کی ہڈی کی حےثےت رکھتی ہے ۔ےہ امر خوش آئند ہے کہ ارباب حکومت نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کی آہنی سر کوبی کا عزم کر رکھا ہے ۔ےہ عناصر اسلام مخالف قوتوں کے آلہ کار کی حےثےت سے مسلم امہ کو فرقوں ،مسلکوں اور اکائےوں مےں تقسےم کرتے ہےں ۔جہاں تک فرقہ وارانہ دہشت گردی کا تعلق ہے تو ےہ بات بلا مبالغہ کہی جا سکتی ہے کہ نام نہاد مذہبی رہنماﺅں نے مسلکی تعصبات کو انفرادی و گروہی دکاندارےاں چمکانے کا ذرےعہ بنا رکھا ہے ۔اگر دےانت داری سے عالم اسلام کے انحطاط و تنزل کے اسباب وعلل کا کھوج لگانے کی کوشش کی جائے تو آخری تجزےے مےں ےہ حقےقت روز روشن کی طرح ابھر کر سامنے آئے گی کہ عالم اسلام کو اس کے خارجی اور بےرونی دشمنوں نے اتنا نقصان نہےں پہنچاےا جتنا اس کے داخلی اور اندرونی دشمن پہنچاتے رہے ۔خارجی اور بےرونی دشمن تو اعلانےہ عالم اسلام کے خلاف بر سر پےکار ہےں لےکن ےہ داخلی اور اندرونی دشمن ”زےر زمےن اور پس پردہ“ کاروائےوں سے اسلامی معاشروں اور مملکتوں کی وحدت کے آبگےنے کو پاش پاش کرنے مےں مصروف ہےں ۔وہ پرےشر گروپس اور مسلکی انتہا پسندی کی علمبردار جماعتےں جو فرقہ وارےت کے زہر کو اس ملک کے عوام کی شرےانوں مےں دوڑانا چاہتی ہےں انہےں اپنے گمراہ کن نظرےات و عزائم پر نظر ثانی کرنی چاہےے۔انہےں سوچنا چاہےے کہ کےا تارےخ کے اس نازک اور حساس موڑ پر وطن عزےز ان متعصبانہ اور تنگ نظر رجحانات و تصورات کے فروغ کا متحمل ہو سکتا ہے ؟ ےہ تو کسی کو بتانے کی ضرورت نہےں کہ وطن عزےز آئےنی طور پر اےک مسلمہ اسلامی جمہورےہ ہے ۔اسلام آپس مےں بےر رکھنا نہےں سکھاتا ،وہ آفاقےت کا پرچم بردار ہے ۔ےہ اےک لمحہ فکرےہ ہے اس دےن کامل کے پےروکار جو دنےائے انسانےت کو محبت اور اخوت کا پےغام دےنے مےں پےش پےش رہا ،آپس مےں نہ صرف دست و گرےباں ہوں بلکہ اےک دوسرے کےلئے ہلاکت کے پےغامبر بنےں ۔روح اسلام کا تقاضا ےہی ہے کہ علمائے کرام اور ذاکرےن عظام بلا امتےاز و مسالک آگے بڑھےں اور اپنا حقےقی فرےضہ ادا کرتے ہوئے قوم کو وحدت کا پےغام دےں ۔محرم الحرام کی بابرکت ساعتوں کا تقاضا ےہی ہے کہ دےنی پےشوا اپنے منصب کی اہمےت اور نزاکت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اتحاد بےن المسلمےن کی فضا کو سازگار بنانے کےلئے سر گرم عمل ہو جائےں۔حقےقی علمائے کرام و مشائخ عظام نے کبھی اپنے فرض منصبی سے روگردانی نہےں کی ۔انہوں نے عوام کو ہمےشہ اتحاد و اخوت اور رواداری و برداشت کا پےغام دےا ۔انہوں نے تفرقہ پھےلانے کے مذموم عمل کو ہمےشہ نفرت اور ناپسندےدگی کی نگاہ سے دےکھا ۔فروغ اسلام کو اپنی زندگےوں کا محور و مرکز بنا لےنے والے دےنی پےشواﺅں اور سکالرز نے دعوت و تبلےغ کا کام کرتے ہوئے تمام انسانےت کو اپنا مخاطب تصور کےا ہے۔دعوت و تبلےغ کے اس عظےم کام کی اصل روح اور خاصا ےہی ہے کہ وہ داعی کو اس کرہ ارض پر بسنے والے ہر انسان کا خےر خواہ بنا دےتا ہے ۔ اس امر کی خواہش اسے ہمےشہ مضطرب اور بے چےن رکھتی ہے کہ اولاد آدم مےں سے ہر اےک تک سلامتی کے راستے کا پےغام پہنچائے ۔ےہ تو طے ہے کہ داعےان اسلام کے نزدےک سلامتی کا راستہ صرف اور صرف اسلام ہے ۔اگر کوئی داعی اپنے مدعوئےن سے نفرت کرنا شروع کر دے تو ےقےنااسے دعوت کے بجائے حرب و پےکار کا راستہ اختےار کرنا پڑے گا ۔اسلام اپنے پےروکاروں کو آخری حد تک حرب و پےکار کا راستہ اختےار کرنے سے منع کرتا ہے تا وقتےکہ جنگ ان کے سر پر مسلط نہ کر دی جائے ۔اس زمےن پر بسنے والا ہر انسان اس کا تعلق خواہ کسی بھی مذہب اور دھرم سے کےوں نہ ہو ،اس تک سلامتی کے راستے کی دعوت پہنچانا ہر حلقہ بگوش اسلام کا اساسی فرےضہ ہے۔اس فرےضے کو وہ صاحبان کردار ہی ادا کر سکتے ہےں جو اخوت کی جہانگےری اور محبت کی فراوانی کے علمبردار ہوتے ہےں ۔اس فرےضے کی انجام دہی کےلئے انہےں اےسی دانشمندانہ ،مفاہمانہ اور مصالحانہ حکمت عملی اپنانا پڑتی ہے جس کے تحت گردوپےش سے نفرت ،منافرت تفرقے اور انتشار کی دھند مکمل طور پر چھٹ جائے ۔سلامتی کے راستے کی طرف دعوت دےنے والے امت مسلمہ کے علاوہ دےگر مذاہب کے پےروکاروں کو بھی امت کا ہی جزو لانےفک سمجھتے ہےں ۔اس نقطہ نظر سے وہ انسانےت کو صرف دو حصوں مےں تقسےم کرتے ہےں حلقہ بگوشان اسلام ان کے نزدےک امت مستجاب ہےں اور جبکہ آفتاب اسلام کے نور سے مستفےض ہونے کے شرف سے محروم رہ جانے والی انسانےت امت مدعو ہے۔محرم الحرام کے دوران وطن عزےز کے چھوٹے اور بڑے شہروں مےں شہےد کربلا امام حسےنؑ اور ان کے جانثار ساتھےوں کی عہد ساز قربانےوں کو خراج تحسےن پےش کےا جاتا ہے ۔ان خصوصی تقارےب کا اہتمام ہماری قدےمی روائت ہے ۔مساجد مےں خصوصی محافل ذکر اور مجالس مواعظ کا اہتمام کےا جاتا ہے ۔امام بارگاہوں مےں ذاکر اور خطےب آپ عالی مقام اور ان کے ساتھےوں کی قربانےوں کا ذکر کرتے ہوئے اتحاد بےن المسلمےن پر زور دےتے ہےں ۔اکےسوےں صدی کے اس عشرہ مےں امت مسلمہ اور عالم اسلام ابتلاﺅں اور آزمائشوں کے دوراہے پر کھڑی ہے ۔ابتلاﺅں اور آزمائشوں کا مقابلہ زندہ اقوام نے ہمےشہ اتحاد و اتفاق سے کےا ۔انتشارو افتراق تو اےک اےسی مہلک وبا ہے کہ جو بھی اس کی زد مےں آتا ہے فنا کے گھاٹ اتر جاتا ہے ۔بد قسمتی سے ہمارے ہاں محض مسلکی ،فقہی ،جزئی،فروعی اور شخصی دکاندارےوں کو چمکانے کےلئے علمائے کرام اور مشائخ عظام کے لبادے مےں بعض عناصر معاشرے اور مملکت کو انتشارو افتراق کے شعلوں مےں جھونکنے کے مذموم عمل مےں مصروف ہوتے ہےں ۔اسلام کسی بھی شخص کو اس امر کی اجازت نہےں دےتا کہ وہ پےش پا افتادہ مفادات کے حصول کےلئے منافرت پھےلا کر اتحاد امہ کے دامن کو پارہ پارہ کرے ۔حضرت امام حسےنؑ ،ان کے اہلبےت اور صحابہ کی عظےم قربانےاں پےروان اسلام کو وحدت اور اتحاد کا درس دےتی ہےں ۔نئے اسلامی سال کے آغاز پر اس امر کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ قومی ےکجہتی کو فروغ دےنے کےلئے ہمہ جہتی ہم آہنگی پےدا کی جائے ۔ ماہ محرم الحرام کا پہلا عشرہ امن و امان کی صورت حال کے حوالے سے نہائت اہمےت اور حساسےت کا حامل ہوتا ہے ۔اس موقع پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے بھرپور انتظامات کئے جاتے ہےں تاکہ کسی بھی سطح پر کوئی ناخوشگوار واقعہ جنم نہ لے سکے ۔راقم کے ضلع سےالکوٹ مےں ڈی پی او محمد حسن اقبال اےک متحرک پولےس آفےسر ہےں اور ضلع مےں مجلس عزا کے ہونے والے پروگراموں مےں پولےس نفری کم ہونے کے باوجود انتہائی فعالےت ،تندہی اور چاکبدستی کے ساتھ ذمہ دارےاں ادا کر رہے ہےں ۔ راقم کے متعلقہ تھانہ مراد پور کے اےس اےچ او مےاں رزاق انتہائی فعالےت ،تندہی اور چابکدستی کے ساتھ مفوضہ ذمہ دارےاں ادا کر رہے ہےں اور امام بارگاہوں کے ارد گرد کڑے حفاظتی انتطامات دےکھنے مےں آ رہے ہےں ۔