کالم

متوازن وفاقی بجٹ 25-2024

وفاقی وزیر خزانہ اورنگ زیب نے حزب اختلاف سنی اتحاد کونسل کے شور شرابے میں سال دو ہزار چوبیس اور پچیس کا بجٹ پیش کیا ۔ اس بجٹ کا کل حجم اٹھارہ ہزار آ ٹھ سو ستتر ارب روپے رکھا گیا ہیے۔ اس بجٹ میں آٹھ ہزار پانچ سو ارب کا خسارہ دکھایا گیا ہیے ممبران پارلیمنٹ کے ترقیاتی فنڈز کے لئے پچھتر ارب روپے رکھے گئے ہیں لگثری آئیٹمز پر ٹیکسز بڑھا دئیے گئے ہیں ۔اس بجٹ کی اہم بات یہ ہیے کہ حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بائیس فیصد سے پچیس فیصد تک اضافہ کر دیا ہیے۔ ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پینشن میں بھی پندرہ فیصد تک اضافہ کیا گیا ہیے ۔ مالیاتی فنڈ کے دبا میں پینشن اصلاحات متعارف کرائی جا رہی ہیں کم سے کم اجرت سینتیس ہزار روپے کر دی گئی ہیے انکم ٹیکس سلیب بڑھا کر سرکاری ملازمین پر مزید بوجھ ڈال دیا ہیے ۔
وزیر خزانہ نے کہا کوئی مقدس گائیے نہیں اب سب کو ٹیکس دینا ہوگا ۔ حکومت نے پی آ ئی اے کی نجکاری کا فیصلہ کیا ہیے۔ پی ڈبلیو ڈی کا محکمہ ختم کرنے کا اعلان کیا ہیے۔ آ ئی ایم ایف کا وفد اسٹاف لیول معاہدہ کئے بغیر واپس چلا گیا۔ حالیہ بجٹ میں حکومت نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی تمام شرائط مانتے ہوئے عوام پر ٹیکسوں کا بھاری بوجھ ڈال دیا ہیے جس سے مہنگائی کے ہاتھوں تنگ غریب عوام بلبلا اٹھے ہیں۔ چونکہ مہنگائی کی شرح کم ہوئی ہیے اس لئے سٹیٹ بینک نے شرح سود میں ڈیڑھ فیصد کمی کر دی ہیے۔ دوسری طرف شوگر مل مالکان کے دبا میں آ کر حکومت نے ڈیڑھ میٹرک ٹن شوگر برآمد کرنے کی اجازت دے دی ہیے جس سے ملک میں چینی مہنگی ہو جائیے گی زخیرہ اندوز ایک بار پھر میدان میں آ جائیں گے چینی مینوفیکچررز کی سپلائی پر فی کلو ایکسائیز ڈیوٹی لگا دی گئی جس سے چینی کی قیمتیں بڑھ جائیں گی ۔حکومت نے اڑتیس کھرب کے ٹیکس عاید کر دئیے ہیں بجٹ میں سولر پینل سستے جبکہ موبائل فونز سگریٹ پولٹری فیڈز سٹیل کاغذ سیمنٹ اور گاڑیاں مہنگی ہو گئی ہیں ۔ پٹرولیم لیوی میں اضافہ کرکے چھوٹ ختم کر دی۔ جائیداد کی خرید و فروخت پر ٹیکس بڑھ گئے ۔ جعلی سگریٹ فروخت کرنے والی دکانیں سیل ہونگی نن فائلرز کے ٹیکس کی شرح پنتالیس فیصد کر دی گئی جو بہت زیادہ ہیے ان کے ملک سے باہر جانے پر پابندی لگا دی گئی ہیے ملکی دفاع کے لئے دو ہزار ارب سے زیادہ رقم مختص کی گئی ہیے واٹر ریسورسز ٹرانسپورٹ مواصلات نیشنل ہائی ویز جیسے ترقیاتی منصوبوں کے لئے سینتیس سو بانوے ارب روپے رکھے ہیں ۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت ٹیکس بیس بڑھانا چاہتی ہیے۔ ٹیکس جی ڈی پی کی نو فیصد کی شرح کو ہم تیرہ فیصد تک لے کر جائیں گے۔ حکومت چاہتی ہیے کہ غیر منافع بخش اور معیشت پر بوجھ اداروں کو ختم کر دیا جائیے یا ان کی نجکاری کی جائے اس بارے میں بجٹ میں کوئی اعلان نہ ہو سکا ایک اور کمیٹی بنا دی پہلی کمیٹی نے ایک ٹریلین روپے کی بچت کا کہا تھا ۔ تعلیمی وظائف میں اضافہ طالبات کے لئیے پنک بسیں چلانے اور کفایت پروگرام کا دائرہ ایک کروڑ افراد تک بڑھانے کا اعلان کیا پینشن کا بوجھ کم کرنے کے لئیے اصلاحات ہونگی غربت کے خاتمے کے لئے اسکیمیں متعارف کرائی جائیں گی۔ وفاقی بجٹ پیش کرتے وقت وزیر خزانہ اورنگزیب نے کوشش کی ہیے کہ محدود وسائل میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جا سکے اصل مسلہ یہ ہیے کہ حکومت نے آ ئی ایم ایف سے قرضہ لینا ہیے اس لئے اس کی تمام شرائط مان کر بجٹ بنایا ہیے۔ ماہرین اس بجٹ کو عوام دوست قرار نہیں دے رہیے سکریپ پر ٹیکس چھوٹ دینے پر شکوک و شبہات ہیں۔ سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اس بجٹ پر تحفظات کا اظہار کیا ہیے ۔ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں وزیر خزانہ نے بجٹ میں اٹھائے گئے اقدامات کا دفاع کیا انہوں نے کہا بجٹ میں چار اصول اپنائے گیے ٹیکس پیس میں اضافہ ایف بی آر کی ڈیجیٹائیزیش نن فائلرز پر زیادہ ٹیکس لگانا ہول سیلرز اور ریٹیلرز سے جولائی سے ٹیکس وصول کرنا شروع کریں گے وزیر خزانہ نے ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کو 13 فیصد تک لے جانے کو پھر دہرایا ۔ گو شہباز حکومت کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی کا گراف نیچے آیا ہیے ۔ حالیہ بجٹ میں بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے مہنگائی کا جو طوفان آ ئیے گا آ نے والے مہینوں میں حکومت اس سے کیسے نپٹے گی ۔ آ ئی ایم ایف کی سخت شرائط پوری کرنے کے لئے ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کا سہارا لیا گیا ہیے بجٹ قوی اسمبلی اور سینٹ سے پاس ہونا ہیے عام آ دمی کے استعمال کی اشیا پر ٹیکسز میں کمی کی جائے پولٹری فیڈز بیکریز چینی سیمنٹ پر ٹیکسز واپس لئے جائیں۔
پی پی کے سینٹر رضا ربانی نے اسے آ ئی ایم ایف کا بجٹ قرار دیا ہیے ٹیکس ٹارگٹ 12970 ارب روپے رکھا گیا ہیے لیکن پاکستان کے معاشی حالات اتنے اچھے نہیں ہیں کہ اسے پورا کیا جا سکے مجبورا اسے کم کرنا پڑے گا آب آپ عوام پر اور کتنا بوجھ ڈالیں گے۔ حکومت نے وفاقی بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشنرز کی پینشن میں اضافے کا اعلان کیا تھا پٹرول کی قیمت میں 10.20 روپے کی کمی کرتے ہوئے ریلیف کو عوام تک منتقل کر دیا۔ اس حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تیسری بار کمی کی ہیے۔ حکومت نے اچانک بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 5 روپے سے زیادہ کا اضافہ کر دیا۔ یعنی ایک ہاتھ دیا اور دوسرے ہاتھ لے لیا ہیے ۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے قرضہ لینا اتحادی حکومت کی مجبوری ہیے اس لئے دستیاب وسائل میں متوازن بجٹ ہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri