حکمرانوں کے عوام کے ٹیکسوں سے حاصل کی گئی مراعاتوں سے معاشرے اور ملک ترقی نہیں کرتے ہیں ،حکمرانوں کے پروٹوکول سے بھی قوموں کی شان میں اضافہ نہیں ہوتا،حکمرانوں کے بے تحاشہ اثاثوں و جائیدادوں ،آئی ایم ایف وغیرہ سے قرض لینے اور بھیک مانگنے سے معیشت میںاستحکام نہیں آتا،حکمرانوں کے بادشاہوں کی طرح شایانہ زندگی بسر کرنے سے معاشروں اور ملکوں کا گراف بلند نہیں ہوتا، عوام کے ٹیکسوں کو اپنے مفادات کےلئے استعمال کرنے سے ملک میں خوشحالی نہیں آتی بلکہ اس سے ملک اور معاشرے تنزیلی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ انصاف سے معاشرے اور ملک ترقی کرتے ہیں، حکمرانوں کے سادہ طرز عمل ،کفایت شعاری اوراخلاص سے ملک وملت خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں۔ عوام کا پیسہ عوام پر خرچ کرنے سے ، سیکورٹی اہلکاروں کو اشرافیہ کی بجائے عوام کی حفاظت سے ملک میں معاشی استحکام اور عوام کو تحفظ حاصل ہوتا ہے ۔ ہمارے ملک سے کئی گناہ بڑی ریاست اور بڑی طاقتوں کے درمیان کے ملک جس کا رقبہ 22لاکھ مربع میل سے زیادہ تھا، جہاں انسان تو انسان ، حیوان بھی حیوانوں سے محفوظ ہوتے تھے،زکوة اور امداد لینے والا کوئی نہیں ملتا تھا،حکمران رات کو محلات میں سخت سیکورٹی میں رہنے کی بجائے گلیوں میں گشت کرتے تھے کہ کوئی فردبھوکا تو نہیں سویا، کوئی تکلیف اور پریشانی میں مبتلا تو نہیں ۔ معاشرے اورممالک ایسے حکمرانوں کے باعث ترقی کرتے ہیںا ور خوشحال ہوجاتے ہیں، ایسی عظیم شخصیات دنیا کے حکمرانوں کےلئے بھی رول ماڈل ہوتے ہیں۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ رب العزت سے دعا مانگی کہ ” اے پرورد گار ! عمر بن خطاب ےا عمر بن حشام (ابوجہل) کے ذرےعے اسلام کو تقوےت دے”۔ اللہ رب العزت نے اپنے حبیب حضرت محمد ﷺ کی دعا قبول کی اور نبوت کے چھٹے سال ماہ ذی الحجہ مےں حضرت عمر ؓ نے اسلام قبول کیا۔اےک رواےت کے مطابق حضرت عمر بن خطاب ؓ سے قبل انتالےس(39) افراد مسلمان ہوئے تھے اور چالےسوےں آپ ؓ تھے۔1۔ حضرت ابوبکر صدےق ؓ،2۔حضرت عثمان غنیؓ،3۔حضرت علیؓ،4۔حضرت زبےرؓ ،5۔حضرت طلحہ ؓ،-6حضرت سعد،7ََّّّّّّّّ۔عبدالرحمن ؓ، 8ّ۔حضرت سعےدؓ، 9۔حضرت ابو عبےدہؓ،10۔ حضرت حمزہ بن عبدالمطلبؓ،11۔حضرت عبےد بن الحارثؓ،12 ۔حضرت جعفر بن ابی طالبؓ ،13۔حضرت مصعب بن عمےرؓ، 14۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ،15۔حضرت عےاش بن ابی ربےعہؓ،16 ۔ حضرت ابوذرؓ،17 ۔ حضرت ابو سلمہ بن عبدالاسد ؓ، 18۔ حضرت عثمان بن مظسونؓ،19۔حضرت زےد بن حارثہؓ،20۔ حضرت بلال بن رباحؓ ،21۔حضرت خباب بن الارت ؓ، 22 ۔ حضرت اعتدادؓ، 23 ۔ حضرت صہےبؓ، 24۔ حضرت عمار ؓ ،25 ۔ حضرت عامربن فہےرہؓ ، 26۔ حضرت عمر بن عنبہؓ ، 27۔حضرت نعےم بن عبداللہؓ ، 28۔ حضرت انحامؓ ، 29 ۔ حضرت حاطب بن الحارثؓ ، 30 ۔ حضرت خالد بن سعےد بن العاصؓ ،31 ۔ خالد بن الکبرؓ، 32۔حضرت عبدالرحمن بن حجش ؓ، 33۔ حضرت ابو احمد بن حجش ؓ ،34 ۔ حضرت عامر بن بکر ؓ، 35 ۔ حضرت عتبہ بن غزوانؓ،36 ۔حضرت الارقم بن ابی الارقم ؓ، 37 ۔حضرت واقد بن عبداللہؓ،38۔حضرت عامربن ربےعہؓ ، 39۔ حضرت اسائب بن مظعونؓ اور 40۔ حضرت عمر بن خطاب ؓ۔حضرت عمر ؓ کے قبول اسلام کے بعد مسلمانوں نے کھلے عام نماز پڑھنا شروع کی، اس سے قبل وہ چھپ کر نماز پڑھتے تھے۔آپ ؓ تمام معرکوں اور جنگوں مےں رسول پاک ﷺ کے ساتھ رہے۔ رسو ل اللہ ﷺ نے آپؓ کو فاروق کا خطاب دےا تھا۔ سرور کونےن ﷺ نے آپ ؓ کو دنےوی زندگی ہی مےں جنت کی بشارت بھی دے دی تھی۔آپؓ کے بارے مےں حضور اکرم ﷺ نے فرماےا کہ ” جس راستے سے عمر ؓ گذرتا ہے، شےطان وہ راستہ چھوڑدےتا ہے۔” اسی طرح اےک اور مقام پر رسول اللہ ﷺ نے فرماےا کہ” مےرے آسمانوں پر دو وزےر ہےں،جبرائےل اور مےکائےل اور زمےن پر دو وزےر ابوبکرؓ اور عمر ؓہےں۔”جب آپؓ نے خلافت کا قلم دان سنبھالا تو آپ نے کئی اصلاحات نافذ کےں ۔ان مےں سے اسلامی کےلنڈر،عدالتی نظام،ڈاک کا نظام، سرکاری خزانے کا نظام سمےت متعدد اصلاحات شامل ہےں۔ حضرت عمرفاروق ؓ کی بےوی فرماےا کرتی تھیں کہ حضرت عمرؓ بستر پر سونے کے لئے لےٹتے تو نےند ہی اڑ جاتی تھی اور بےٹھ کر رونا شروع کردےتے تھے ۔مےں سبب درےافت کرتی تھی تو فرماتے تھے کہ ” مجھے محمد ﷺ کی امت کی خلافت ملی ہوئی ہے۔ان مےں مسکےن بھی ہےںاور ضعےف بھی ہےں ، مجھے ڈر لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے ان سب کے بارے مےں پوچھےں گے۔ مجھ سے کوتاہی ہوئی تو مےں اللہ تعالیٰ اور اللہ کے رسول ﷺ کو کےا جواب دوں گا۔ حضرت عمر فاروق ؓ فرماتے تھے کہ”اگر دجلہ کے کنارے اےک کتا بھی بھوک و پےاس سے مر جائے تو مےں عمر اللہ تعالیٰ کو جواب دہ ہونگا۔” آپ ؓ ستائےس ذی الحجہ کومسجد نبوی مےں فجر کی نماز پڑھارہے تھے کہ عےن حالت نماز مےں اےک مجوسی ابولولو فےروز نے خنجر کے پے در پے وار کرکے شدےد زخمی کےا ۔حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓنے آگے بڑھ کر نماز مکمل کرائی۔آپ ؓ کو نماز کے بعد گھر لایا گیا اور اسی حالت مےںگھرمےں نماز ادا کی ۔حضرت عمر فاروق ؓ نے ےکم محرم الحرام تےئس ہجری کوزخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جام شہادت نوش فرمائی۔اےک غےر مسلم نے کہا تھا کہ اگر حضرت عمر فاروق ؓ کی حکومت دس سال مزےد رہتی تو تمام دنےا مےںاسلامی حکومت ہوتی۔آپ ؓ کا نتقال ہوا تو آپ کی سلطنت کے دور دراز علاقے کا اےک چرواہا بھاگتا ہوا آےا اور چےخ وپکارشروع کی کہ لوگو! حضرت عمر فارو قؓ کا ا نتقال ہوگےا ۔ لوگوں نے حےرت سے پوچھا کہ تم مدےنہ سے ہزاروں مےل دور جنگل مےں ہو ، تمےں کےسے علم ہوا ؟ چروائے نے کہا کہ جب تک حضرت عمر فاروق ؓ زندہ رہے تو مےری بھےڑےں جنگل مےں بے خوف چرتی تھےں اورکوئی درندہ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہےں دےکھتا تھا لےکن آج پہلی باراےک بھےڑےا نے مےری بھےڑوں پر حملہ کےا اور بھےڑ کا بچہ اٹھا کر لے گےا۔مےں نے بھےڑےا کی جرات سے جان لےا کہ آج دنےا مےں حضرت عمر فاروق ؓ موجود نہےں ہےں۔آپؓ کا دورِ خلافت اےک سنہرا دور تھا جس مےں اسلامی رےاست کی سرحدوں مےںخاصا اضافہ ہوا تھا، اسلام کی کرنےں دنےا کے چاروں طرف پھےل گئی تھےں۔آپ ؓ کا دور خلافت بہترین دور تھا اور آپؓ مثالی حکمران تھے۔اللہ رب العزت وطن عزیز پاکستان کو حضرت عمرؓ جیسے حکمران عطا کرے۔آمین
٭٭٭٭٭