کالم

مریم اور بلاول عمران کو ٹف ٹائم دیں گے!

مسلم لیگ (ن)اور تحریک انصاف کے درمیان معرکہ گرم ہو چکا ہے اور دونوں جانب سے سیاسی توپوں کے دہانے کھلے ہیں اور ایک دوسرے پر گولہ باری جاری ہے۔الیکشن کے انعقا د پر ہنوز تو سوالیہ نشان لگا ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ جلد یا بدیر حکومت کو عام انتخابات کرانے پڑیں گے۔انتخابی موسم قریب آنے سے دونوں سیاسی جماعتیں اپنی صفیں ترتیب دے رہی ہیں اور اس کے لئے جلسے ،جلوس،ریلیاں،عوامی اجتماع اور پریس کانفرنسوں میں سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔قومی اسمبلی میں بھی ماحول کافی گرم رہا اور چہار جانب سے پارلیمنٹ کی بالادستی اور عدالتی اصلاحات پر خوب بحث و مباحثہ،تبادلہ خیال اور مکالمہ و مذا کرہ ہوا ہے۔ایوان میں عدالتی اصلاحات سے متعلق بل بھاری اکثریت سے منظورکر لیا گیا جہاں حزب اختلاف اور حکومتی اراکین نے اس بل کی بھرپور حمایت کی جبکہ چند آزاد اراکین نے اسے عدلیہ پر قدغن بھی قرار دیا۔فاٹا سے تعلق رکھنے والے محسن داوڑ نے بھی مذکورہ بل میں ترمیم تجویز کی جس کی پذیرا ئی کی گئی ۔اس ترمیم سے متاثرہ شخصیات کو اپیل کا حق مل جائے گا۔
قومی اسمبلی میں منظور ہونے سے قبل یہ بل قائمہ کمیٹی برائے قانون سے منظور ہوا تھا۔ قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد یہ بل ایوان بالا یعنی سینٹ سے منظور کیا جائے گا اور اس کے بعد یہ قانون کی شکل اختیار کر لے گا۔شہباز شریف اور بلاو ل بھٹو نے قومی اسمبلی میں جو تقاریر کی ہیں وہ انتہائی اہم،حساس ،لازوال اور شاندار ہیں۔آج کے بعد پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں ان دونوں کی مذکورہ تقریروں کو تا دیر یاد رکھا جائے گا۔عدالتی اصلاحاتی بل سے میاں نواز شریف اور جہانگیر ترین کی نااہلی ختم ہونے کی راہ ہموار ہوگی اور دونوں متاثرین کو اب اپیل کا حق مل جائے گا۔ہمارے ذرائع کے مطابق مریم نواز بارہا وزیر اعظم شہباز شریف کو کہہ چکی ہیں کہ نواز شریف کی واپسی کے لئے اقدامات تیز کئے جائیں۔اب انتخابی مہم کا موسم آن پہنچا ہے، اس لئے بھی نواز شریف کی پاکستان میں موجودگی لازمی ہو چکی ہے تاکہ مسلم لیگ الیکشن جیتنے کی منصوبہ بندی کرے اور پھر اس لائحہ عمل پر عمل درآمد بھی کرے۔پارٹی کے سینئر رہنما خواجہ آصف،رانا ثنا اللہ ،شاہد خاقان عباسی ،خواجہ سعد رفیق اور دیگر بھی چاہتے ہیں کہ جتنی جلدی ہو سکے اب نواز شریف کی واپسی کو ممکن بنایا جائے تاکہ پارٹی یکسوئی اور دل جمعی سے الیکشن پر توجہ مرکوز کر سکے۔
اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں کہ مریم نواز نے کھڈیاں ضلع قصور میں بہت بڑا اورکامیاب ترین جلسہ کیا ہے۔سچ پوچھیئے تو وہ مینار پاکستان میں عمران خان کے جلسے کا جواب ہے۔قومی اسمبلی میں بلاول بھٹو اور عوامی جلسوں میں مریم نواز عمران خان کو خوب جواب دے رہے ہیں۔دونوں رہنماﺅں کا خون جوان ہے اور وہ کسی لگی لپٹی کے بغیر صاف اور سادہ زبان میں عمران خا ن کو للکار رہے ہیں۔اس الیکشن میں اگر مہنگائی اور بجلی و پٹرول مہنگا ہونے کا امہات مسئلہ نہ ہوتا تو دونوں رہنماں نے عمرا ن خان کو انتخابات میں تاریخ ساز مات دے دینی تھی۔مریم نواز نے قصور میں کہا کہ گیدڑ کو لیڈر بنانے کی پوری کوشش کی گئی لیکن جیسے ہی سہولت کار گئے، جب ماسک اتر گیا تو بیچ سے گھڑی چور نکلا، توشہ خانہ چور نکلا، ہیروں کے سیٹ لینے والا پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا چور اور ڈکیت نکلا، گزشتہ 6برسوں میں سرتوڑ کوششیں ہوئیں کہ گدھے پر لکیریں ڈال کر زیبرا بنایا جائے مگر گدھا تو گدھا ہوتا ہے، زیبرا کبھی نہیں بن سکتا، وہ لکیریں اب مٹ گئیں اور گدھا ریاست کو دولتیاں مار رہا ہے۔مریم نوا ز اپنے انداز بیاں،اپنی شعلہ بیانی اور گرم کلامی کی بدولت عوام کی آنکھوں کا تارہ بن چکی ہیں۔لیگی کارکنان انہیں جوق درجوق سننے آتے ہیں اور وہ بھی لیگیوں کا لہو گرماتی رہتی ہیں۔جب میاں نواز شریف کی واپسی ہوئی اور ساتھ مل کر مریم نواز نے انتخابی مہم چلائی تو یقین جانیئے یہ پانسہ پلٹ دیں گے۔
قومی اسمبلی کے ایوان میں یوسف رضا گیلانی کی نااہلی ختم ہونے کی بھی بازگشت سنی گئی۔سیالکوٹ کے سپوت خواجہ آصف نے ان کے حق میں آواز اٹھائی اور کہا کہ ان کی نااہلی بھی ختم ہونی چاہئے۔اب نااہلیاں ختم ہونے اور جلا وطن رہنماں کی واپسیوں کا وقت آن پہنچا ہے۔اس منظر نامے میں عمران خان کے خلاف گھیرا مزید تنگ ہو گا اور اب انہیں سیاسی حریف ٹف ٹائم دیں گے۔ اگر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کیا جائے تو ان کی پونے چار سالہ حکومتی کارکردگی صفر رہی،وہ باتوں باتوں میں تو طوفان اٹھاتے رہے لیکن کسی عملی اقدام میں وہ بالکل ناکام رہے ہیں۔انہوں نے کسی عوامی منصوبے کا افتتاح کیا اور نہ ہی کسی شعبے میں عوام کو کوئی ریلیف فراہم کیا۔تبدیلی کے نعرے ضرور اونچے سروں میں لگائے گئے مگر پاکستان کے باسیوں کو کچھ نہیں ملا۔پھر جس طرح انہوں نے سیاسی مخالفوں سے سلوک کیا وہ بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک شرمناک اور خوفناک باب ہے۔مریم نواز اور بلاول بھٹو کا آتش جوان ہے اور وہ عمران خان کو شاید کوئی رعایت نہ دیں۔بلاول بھٹو نے تو قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر ببانگ دہل وزیر اعظم شہباز شریف سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عمران خان ،عارف علوی اور قاسم سوری پر آئین شکنی کا مقدمہ چلائیں۔اس سے خوب انداز ہ ہوتا ہے کہ آنے والے ایام عمران خان کےلئے انتہائی کٹھن اور دشوار ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے