حماس کے قائد اسماعیل ہنیہ کی جانب سے اسرائیل کی حالیہ دہشت گردی و جارحیت کے 100دن ہونے پر دنیا بھر کے مسلمانوں سے احتجاج کرنے کی اپیل پر لبیک کہتے ہوئے جماعت اسلامی کے زیر قیادت اسرائیلی افواج کی جانب سے غزہ پر مسلسل بمباری، مظلوم و نہتے فلسطینی مسلمانوں، خواتین و بچوں سمیت سینکڑوں فلسطینیوں کی شہادت کے خلاف اور”اہل فلسطین“ اور ”تحریک مزاحمت حماس“ سے یکجہتی اور اتحاد امت کے اظہار کے لیے شاہراہ فیصل پر عظیم الشان ”غزہ ملین مارچ“ ہواجس میںشہر بھر سے لاکھوں مردو وخواتین اور مختلف طبقات و مکاتب فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد شریک ہوئے۔ جناب سراج الحق امیر جماعت اسلامی پاکستان نے مارچ سے ٹیلی فونک خطاب میں تاریخی غزہ ملین مارچ کے انعقاد پر کراچی کے شہریوں کو خراج تحسین ییش کرتے ہوئے کہا کہ اہل کراچی نے زبردست مارچ منعقد کر کے پیغام دیا ہے کہ وہ جاگ رہے ہیں۔ نگراں وزیر اعظم سن لیں کہ مسئلہ فلسطین دو ریاستی حل نہیں بلکہ صرف فلسطین کی ریاست ہے۔ مسئلہ فلسطین کو دو ریاستی حل کہنے والا امریکی ایجنٹ کہلایا جائے گا۔ ہم بانی پاکستان کے فرمان سے روگردانی نہیں کرنے دیں گے۔ اسرائیل نے امریکا، برطانیہ اور یورپ کی سرپرستی اور عالم اسلام کے حکمرانوں کی بزدلی کے باعث غزہ کا محاصرہ کیا ہوا ہے۔ غزہ وفلسطین میں بچوں اور خواتین کو بے دریغ شہید کیا جارہا ہے لیکن عالم اسلام کے حکمرانوں اور اقوام متحدہ نے مجرمانہ خاموشی اپنائی ہوئی ہے۔ جب امریکا اور یورپ اسرائیل کا ساتھ دے سکتے ہیں تو عالم اسلام کے حکمرانوں اور ان کی افواج فلسطین کا ساتھ دینے اور قبلہ اول کے تحفظ کے لیے کوئی پیش قدمی کیوں نہیں کرتے؟، مسلم حکمرانوں اور ان کی 74 لاکھ افواج نے فلسطینی مسلمانوں کے لیے کچھ نہیں کیا۔ محترم سراج الحق کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی نے عالمی سطح پر بھی اہل فلسطین کے لیے آواز اٹھائی ہے اوراب تک ایک ارب چالیس کروڑ کی رقم فلسطینی مسلمانوں کو بھجوا چکی ہے۔ اس کے علاوہ الخدمت فاو¿نڈیشن نے طبی امداد اور ڈاکٹروں و رضاکاروں کی ایک جماعت بھی غزہ بھجوائی ہے۔ عوام اہل غزہ و فلسطینی مسلمانوں کی مدد کرنے، ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے انتخابات میں بزدل حکمرانوں کو مسترد کریں اور 8 فروری کو جماعت اسلامی کے انتخابی نشان ترازو پر مہر لگائیں۔ جماعت اسلامی ہی عوام کے مسائل حل کرسکتی ہے اور پوری دنیا میں امت کی آواز بن سکتی ہے۔ امیر جماعت اسلامی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ جماعتیں جو خود کو قومی جماعتیں کہتی ہیں وہ اسرائیل کی مذمت نہیں کررہیں اور اقتدار کے لیے امریکا طرف دیکھ رہی ہیں۔ پاکستان کے عوام نظریاتی ہیں اور عوام ان پارٹیوں کو کبھی معاف نہیں کریں گے جنہوں نے اسرائیل اور امریکا کی مذمت اور حماس کی حمایت نہیں کی ۔ حافظ نعیم الرحمان امیر جماعت اسلامی کراچی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہاں رہ کر جو کچھ کرسکتے ہیں وہ ضرور کریں گے۔ ہم امریکا اور اسرائیل مردہ باد کہیں گے اور حماس کی حمایت کریں گے۔ ہم اسرائیل اور امریکا کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں گے۔ ہم نے حماس کے مجاہدوں، القسام بریگیڈ اور اہل غزہ کو بھلایا نہیں ہے۔ ہم انتخابات میں بھی اہل غزہ و فلسطین سے اظہار یکجہتی کررہے ہیں۔ہم اپنی کسی بھی کارنر میٹنگز اور انتخابی مہم میں اہل غزہ اور فسلطینی مسلمانوں کو نہیں بھولیں گے۔ امریکا مردہ باد اسرائیل مردہ باد کے نعرے لگائیں گے۔ عوام اپنے حکمرانوں اور حکمران پارٹیوں سے کہہ دیں کہ اگر ووٹ لینا ہے تو حماس کے مجاہدین اور اہل غزہ کی حمایت کریں اور امریکا اور اسرائیل کی مذمت کریں۔ اسرائیل و امریکا کی معیشت کو تباہ کرنے کے لیے پاکستانی برانڈ کی تشہیر کے لیے 20 اور 21 جنوری کو ایکسپو سینٹر میں نمائش منعقد کی جائے گی۔ ہم اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے پاکستانی برانڈ کی تشہیر کریں گے۔ کراچی کے عوام ایکسپو سینٹر میں پاکستانی برانڈ کی نمائش میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں شریک ہوں۔ نمائش میں ہونے والا فائدہ اہل غزہ و فلسطینی مسلمانوں کی امداد کے لیے مختص کیا جائے گا۔ حماس کے مجاہدین اور اہل غزہ نے دنیا بھر میں اسلامی تحریکوں کو ایک جگہ جمع کردیا ہے۔اہل غزہ اور فلسطین کے مسلمانوں نے طوفان اقصیٰ کے ذریعے اسرائیل کے بتوں کو پاش پاش کردیا ہے۔ 57 اسلامی ممالک کو اہل غزہ کے لیے کھڑا ہونا چاہیے تھا، افسوس عالم اسلام کے حکمرانوں اور اقوام متحدہ نے مجرمانہ خاموشی اپنائی ہے۔جنوبی افریقا نے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میںمقدمہ دائر کیا ۔کاش کوئی اسلامی ملک اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت میں جاتا، فلسطینیوں کی حمایت پر ہم جنوبی افریقا کا احسان کبھی نہیں بھولیں گے۔جنوبی افریقہ نے عالمی عدالت انصاف میں الزام عائد کیا ہے کہ اسرائیل پر حماس کے حملوں کے جواب میں غزہ پر اسرائیل کی عسکری کارروائی کے پہلے ہفتے میں 6,000 بم برسائے گئے۔ اس میں غزہ کے جنوبی علاقوں میں کم از کم 200 موقع پر 2,000 پاو¿نڈ سے زیادہ وزنی بم بھی گرائے گئے جبکہ ان جگہوں کو محفوظ قرار دیا گیا تھا۔ ایسے ہی حملے شمالی میں پناہ گزینوں کے کیمپوں پر بھی کیے گئے۔جنوبی افریقہ کی وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اسرائیل کے یہ اقدامات انسداد نسل کشی کے کنونشن کی خلاف ورزی ہیں۔ اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے دوسری عالمی جنگ کے بعد انسانیت کے خلاف جرائم کی روک تھام کے لیے اس کنونشن کی منظوری دی تھی۔