کالم

مساجد پر حملے ،ٹی ٹی پی اور را کا شیطانی ایجنڈا

دفاعی اور سفارتی مبصرین کے مطابق نگراں وزیراعظم نے بجا طور پر کہا ہے کہ مستونگ اور ہنگو میں دہشتگرد حملوں نے ملک کے دیگر علاقوں میں ہونے والے واقعات کے زخم تازہ کر دیئے ہیں۔واضح رہے کہ وزیراعظم نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ شہید ہونے والوں کی مغفرت اور زخمیوں کی جلد شفاءیابی کے لئے دعا گو ہوںاور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک دہشت گردی کےخلاف ہماری جنگ جاری رہے گی۔اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے سنجیدہ حلقوں نے کہا ہے کہ یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ ٹی ٹی پی کے ہاتھوں پولیس لائن مسجد کی شہادت اور قران شریف کی بے حرمتی کا دکھ ابھی گیا نہیں تھا کہ ایک مسجد اور شہید کر دی گئی۔مبصرین کے مطابق اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی منافقت کے اس مقام پرہے جہاں پر الفاظ بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہےں ۔یہ امر تشویش ناک ہے کہ گزشتہ 9ماہ کے دوران مساجد پر یہ پانچواں بڑا دہشت گرد حملہ ہے ۔خود کو مسلمان کہلانے والے ان دہشت گردوں نے نہ اللہ کے گھر کا لحاظ کیا اور نہ ہی قیمتی جانوں کا احساس کیا ۔بھلا اس بات سے کون اختلاف کر سکتا ہے کہ پر امن نمازیوں پر حملے کرنا پوری انسانیت پر حملے کرنے کے مترادف ہے۔اس تناظر میں غالبا یہی کہا جا سکتا ہے کہ ٹی ٹی پی اور را نے آپس میں سر جو ڑ لےے ہےں ہاتھ ٹی ٹی پی کے استعمال ہو رہے ہےں جبکہ اس کی باگ دوڑ را کے ہاتھوں میں ہے۔سبھی جانتے ہےں کہ 25جولائی کوخیبر پختونخوا کے ضلع خیبر کے علاقے جمرود میں تھانہ علی مسجد کی حدود میں ہونے والے خودکش دھماکے میں ایڈیشنل ایس ایچ او عدنان آفریدی شہید ہوگئے تھے۔
مبصرین کے مطابق سال رواں یعنی 30 جنوری کو پشاور پولیس لائنز میں بھی خودکش دھماکا ہواتھا جس کے نتیجے میں 100سے زیادہ نمازی شہید ہو ئے جبکہ 60کے قریب لوگ شدید زخمی ہوئے۔سنجیدہ حلقوں کے مطابق اس تما م معاملے کا یہ پہلو غور طلب ہے کہ کوئی گناہ کار سے گناہ کار مسلمان بھی نماز کے دوران کسی کی جان لینے کا تصور بھی نہےں سکتا لہذا خودکش حملہ آوروں کو مسلمان قرار دینا مشکل ہی نہےں بلکہ نا ممکن ہے ۔ایسے میں یقینا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کس قسم کے مسلمان ہےں جو مساجد پر حملے کر رہے ہےں کیوں کہ مساجد پر حملے کرنے والے نام نہاد مسلمان تو کافروں سے بھی بدتر ہےں ۔ اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے ماہرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ پچھلے چند ہفتوں سے کے پی ،بلوچستان اور ملک کے کئی دیگر حصے دہشت گردی کی نئی لپیٹ میں ہےں ۔ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشتگردی کے تدراک کے لئے نیشنل ایکشن پلان پر اس کی صحیح روح کے مطابق عمل کرنے کی جانب موثر پیش رفت ہو کیوں کہ یہ امر کسی سے پوشیدہ نہےں کہ ضرب عضب اور آپریشن رد السفاد کے نتیجے میں فسادیوں کا بڑی حد تک خاتمہ ہوا مگر بد قسمتی سے باوجوہ یہ سلسلہ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا ۔ مبصرین کے مطابق قوموں کی زندگی میں بسا اوقات ایسے مراحل درپیش آتے ہیں، جو ظاہری طور پر بہت مشکل اور صبر آزما ہوتے ہیںمگر باہمت اقوام کا یہ وصف ہوتا ہے کہ ان وہ چیلنجوں کو ”مواقع“ میں تبدیل کر لیتی ہیں۔ 16 دسمبر 2014 کو پشاور اے پی ایس میں جو انتہا ئی افسوس ناک المیہ پیش آیا البتہ اس کو تاحال قومی سطح پر پوری طرح سے ایک ”موقع “میں نہیں ڈھالا جا سکا۔ اگرچہ اس سمت میں پیش رفت جاری ہے مگر تاحال شاید اس بابت اطمینان بخش نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔ اس صورتحال کا جائزہ لیتے ماہرین نے کہا ہے کہ پشاور آرمی پبلک سکول میں جو سانحہ ہوا، اس نے یکدم پوری ملک کی سیاسی و عسکری قیادت اور تمام طبقات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اسی تناظر میں حکومت پاکستان نے سبھی متعلقہ فریقین کی باہمی مشاورت سے ایک بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا تھا جس کے ذریعے یہ طے کیا گیا تھا کہ وطن عزیز کو درپیش دہشتگردی اور انتہا پسندی کے سنگین خطرات کا تمام حکومتی و¿و ریاستی ادارے کس طور تدارک کریں گے اور کس ڈھنگ سے اس مخدوش صورتحال کا موثر اور مربوط طریقے سے سامنا کیا جائے گا۔اسی حوالے سے پارلیمنٹ کا خصوصی ہنگامی اجلاس بھی بلایا گیا تھا جس میں سبھی سیاسی جماعتوں نے بھرپور ڈھنگ سے شرکت کی۔ خصوصی عدالتیں قائم کی گئیں اور مجرموں کو عبرت ناک سزائیں دینے کا اعلان کیاگیا۔اس ضمن میں ابتدائی ہفتوں میں کافی اقدامات بھی اٹھائے گئے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بوجوہ یہ امر اس حد تک نتیجہ خیز اور باآور ثابت نہ ہو پایا جس کی توقع کی گئی تھی۔ اس ضمن میں اگرچہ کافی پیش رفت بھی ہوئی اور ضرب عضب اور رد الفساد کے تحت دہشتگردی کے ڈھانچے کو کافی حد تک کمزور بھی کیا جا چکا ہے مگر اس کے باوجود اکا دکا واقعات نہ صرف جاری ہیں بلکہ گذشتہ چند ہفتوں میں دہشتگردی کی یہ عفریت یوں لگتا ہے جیسے نئی نئی شکلیں بدل کر پھن پھیلانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ اس میں اب کئی چھوٹے اور بڑے گروہ مختلف ناموں سے پھر سر اٹھا رہے ہیں۔ اس حوالے سے نئی منصوبہ بندی کی ضرورت بجا طور پر محسوس کی جا رہی ہے۔ اسی سلسلے کا جائزہ لیتے ماہرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ ایک جانب تو موثر قانون سازی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ ٹی ڈی پیز اور آئی ڈی پیز کی آبادکاری اور فاٹا اصلاحات کو قانونی اور آئینی شکل دے کر اس مسئلے کا مستقل بنیادوں پر حل نکالا جا سکتا ہے۔ یہ امر کسی حد تک خوش آئند ہے کہ گذشتہ کچھ عرصے میں اس ضمن میں خاصی سنجیدگی دکھائی جا رہی ہے۔ یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ نیشنل ایکشن پلان ملکی سلامتی کی اہم ترین دستاویز ہے۔اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے غیر جانبدار حلقوں نے توقع ظاہر کی ہے کہ زمینی حقائق اس ا مر کے متقاضی ہیں کہ قوم کے سبھی حلقے تدبر ،معاملہ فہمی اور رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نیشنل ایکشن پلان کو اس کی صحیح رُو اور سپرٹ کے مطابق نافذ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے ۔اسی تناظر میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حکومت آرمی چیف کی معاونت سے زرعی ، صنعتی اور معاشی اور معاشر تی شعبے میں اصلاحات کے لئے سرگرم ہے ایسے میں بجا طور پر توقع کی جانی چاہےے کہ معاشرے کے سبھی حلقے باہم مل کر ملکی ترقی کی راہ میں اپنا اپنا مثبت کردار نبھائیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے