یہ بات تو طے شدہ ہے کہ جس ملک میں سیاسی عدم استحکام ہو وہاں پر کاروبار اورسرمایہ کاری کے حالات سست ہوجاتے ہیں کیونکہ سرمایہ کار پُرسکون رہ کراپنے سرمایہ کاتحفظ اور بہتر منافع کاخواہشمندہواکرتاہے ۔بدقسمتی سے پاکستان میں گزشتہ چھ سات سال سے سیاسی عدم استحکام کاکلچرل متعارف ہوا ہے اوراس کاتمام تر سہراسابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف کے سر آتا ہے کیونکہ انہوں نے ملک میں احتجاجی سیاست کوفروغ دیا۔ نوازشریف کی مستحکم حکومت جس کے دوران بیرونی سرمایہ کا ر پاکستان آکر سرمایہ کاری کررہے تھے اور پاکستان نے سی پیک جیسے بین الاقوامی منصوبے شروع ہوچکے تھے مگر عمران خان کی دھرناسیا ست نے ان سرمایہ کاروں کو بوریابستر لپیٹ کرپاکستا ن سے جانے پرمجبور کردیا۔ ایک سو دن کے زیادہ کے دھرنے نے جہاں عوامی جمہوریہ چین کے صدر کادورہ ملتوی کروایا جس کے باعث پاکستان کی خارجہ پالیسی بھی شدید متاثر ہوئی مگر عمران خان اپنی مزاحمتی سیاست کے کامیاب ہونے پر بہت خوش تھے ۔نوازشریف کی حکومت ختم ہونے کے بعد بارحکومت تحریک انصاف کے ہاتھ آیا اس جماعت نے اپنے پورے عرصہ اقتدارکے دوران ملک کی تما م سیاسی قیادت کو نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بین الاقوامی فورمزپرچور،بدعنوان اور نالائق ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کاچورلگایا جس پر دنیابھرسے آنے والے سرمایہ کار نہ صرف محتاط ہوئے بلکہ ان کایہ عمل پوری دنیا میں جگ ہنسائی کاباعث بھی بنا۔اسی حوالے سے گزشتہ روزوزیراعظم شہباز شریف نے سماجی رابطے کی سائٹ ٹویٹر پر اپنے طویل بیان میںکہا کہ نو مئی کے واقعات پر ملکی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا اور اب سرمایہ کار پیسہ لگانے کو تیار نہیں ہیں۔ عمران نیازی کی معیشت اور سرحدی معاملات پر سمجھ بوجھ دیکھیں جو کافی محدود ہے۔شہباز شریف نے لکھا کہ عمران خان ملکی معیشت کو تباہی کے دہانے پر لانے میں اپنے کلیدی کردار کو بہت آسانی کے ساتھ بھول جاتا ہے، اس کی آئی ایم ایف معاہدے کی خلاف ورزی کر کے پاکستان کو ڈیفالٹ کرنے کی کوشش کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔وزیراعظم نے لکھا کہ عمران خان کی نہ رکنے والی مزاحمتی سیاست، لانگ مارچ اور دھرنوں سے ملک میں سیاسی اور معاشی بحران پیدا ہوا اور اس کے ذریعے عمران خان نے سرمایہ کاروں میں بے یقینی کیفیت بھی پیدا کی جس کی وجہ سے اب وہ اپنا سرمایہ لگانے سے گریز کررہے ہیں۔صرف 9مئی کے واقعات ہی نے معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا ہے جو عمران خان کے ملک مخالف ناپاک عزائم اور یہ ان کے ناپاک عزائم کا کھلم کھلا ثبوت ہے اس کے علاوہ بے تحاشہ کرپشن کی داستانیں علیحدہ ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمیں ابھی بھی معاشی مشکلات کا سامنا ہے مگر ہم الحمدللہ بحرانی کیفیت سے نکل چکے ہیں، ان معاشی مشکلات پر قابو پانے کیلئے سنجیدگی سے حکومت ٹھوس معاشی منصوبہ بندی اور پالیسی سطح پر اقدامات کررہی ہے۔ہم دوست اور شراکت دار ممالک کے ساتھ مل کر جہاں جہاں ضرورت ہے وہاں مالی خلا کو پورا کر رہے ہیں، درآمدات کو کم اور افراط زر میں کمی اصل چیلنجز ہیں، جن سے اسی وقت ہی صحیح معنوں میں مقابلہ کیا جا سکتا ہے جب ہم برآمدات، سرمایہ کاری اور پیداوار میں اضافے کو معیشت ٹھیک کرنے کے بنیادی عناصر بنائینگے ۔وزیراعظم نے مزید لکھا کہ ہماری تمام تر کوششیں و توانائیاں ان اہداف کے حصول پر لگی ہوئی ہیں۔ نیز وزیراعظم شہباز شریف نے ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کو ٹیلی فون کر کے دوبارہ صدر منتخب ہونے پر مبارکباد پیش کی اور نیک تمناو¿ں کا اظہار کیا۔شہباز شریف نے ترکیہ کے نو منتخب صدر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا دوبارہ انتخاب ترکیہ کے عوام سے وابستگی اور مثالی خدمت کا اعتراف ہے، گزشتہ دو دہائیوں میں آپ کی قیادت میں ترکیہ نے نمایاں ترقی کی ہے، مجھے یقین ہے کہ آپ کی دانشمندانہ اور بصیرت افروز قیادت میں ترکیہ ترقی اور خوشحالی کی راہ پر اپنا سفر اسی رفتار سے جاری رکھے گا۔ مجھے یقین ہے کہ ترکیہ خطے اور اسلامی دنیا میں امن و استحکام کےلئے اپنا اور بھی زیادہ موثر کردار ادا کرے گا، پاکستان اور ترکیہ کے درمیان خصوصی تعلقات کو مزید مضبوط اور گہرا کرنے میں آپ کی ذاتی وابستگی باعث تقویت اور اطمینان ہے ۔ آنیوالے دنوں میں دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ برادرانہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کےلئے آپ کے ساتھ مل کر کام کرنے کے پختہ عزم پر کاربند ہیں، دونوں ممالک کی اعلیٰ سطح سٹریٹجک کوآپریٹو کونسل کے ساتویں اجلاس کے جلد انعقاد کے خواہاں ہیں۔ اجلاس میں شرکت کےلئے آپ کی پاکستان آمد پر خیر مقدم کےلئے چشم براہ ہوں، آپ کی آمد دونوں برادر ممالک کی کثیرالجہتی شعبوں میں سٹریٹیجک شراکت داری کے مزید فروغ کا باعث ہوگی ۔ ترکیہ کے نومنتخب صدر رجب طیب اردوان نے وزیراعظم شہباز شریف کا شکریہ ادا کیا اور خیرسگالی کے گرمجوش جوابی جذبات کا اظہار کیا، صدر اردوان نے پاکستان کی حکومت اور عوام کےلئے نیک تمناﺅں کا اظہار کیا۔صدر اردوان 28 مئی کو الیکشن میں مشترکہ اپوزیشن کو شکست دیکر 52.16فیصد ووٹوں کی برتری سے دوبارہ منتخب ہوئے ہیں۔
آرمی چیف کا کوئٹہ گیریژن کا دورہ
یہ بات تو طے ہے کہ پاکستانی افواج اور عوام یکجان ودوقالب ہیں اور دونوں اس ارض مقدس کی حفاظت کے لئے خون کاآخری قطرہ تک دینے کےلئے تیار ہیں اور دونوں ملکر اس ملک میں ہونیوالی ہرقسم کی دخلی وخارجی دہشت گردی کوناکام بنانے کے لئے نہ صرف ایک ہیں بلکہ سیسہ پلائی دیواربنے نظرآتے ہیں۔ پاک فوج کے سپہ سالارجنرل سیدعاصم منیر کایہ کہنا بالکل بجا ہے کہ اس وقت پاکستانی قوم کی بھرپورعوامی تائیدافواج پاکستان کو حاصل ہے ۔ گزشتہ روز اپنے دورہ کوئٹہ کے دوران خطاب میںآرمی چیف نے روایتی غیر روایتی آپریشنل تیاریوں اور ففتھ جنریشن وار فیئر کے حوالے سے تیاریوں پر زوردیتے ہوئے کہا کہ مسلح افواج ہمیشہ پاکستان کے بہادر اور قابل فخر لوگوں کی مقروض ہے پاک فوج دنیا کی مضبوط افواج میں سے ایک ہے ۔افواج پاکستان کے عوام کی شکرگزار ہے کہ انہوں نے ملک کے طول و عرض میں افواج پاکستان سے محبت کا اظہار کیا اور دشمنوں اوران کے سہولت کاروں کو منہ توڑ جواب دیا۔ اللہ کے فضل سے پاکستان کی عوام کا مکمل تعاون افواج پاکستان کے ساتھ ہے اور اس ساتھ کو کوئی بھی ختم نہیں کرسکتا ۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کوئٹہ گیریژن میں فوجیوں کیلئے مختلف فلاحی اسکیموں کا دورہ بھی کیا۔
اقوام متحدہ کاانتباہ۔۔۔!
عالمی ماہرین پاکستان کے اندر جاری معاشی وسیاسی بحران کے حوالے سے اپنی اپنی قیاس آرائیاں کرتے نظرآتے ہیں اورمختلف ریسرچ پیپر کے ذریعے اس کااظہار بھی کرتے رہتے ہیں ۔ایسی ہی ایک ریسرچ رپورٹ اقوام متحدہ نے گزشتہ روزجاری کی ہے جس میں اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر معاشی اور سیاسی بحران مزید بگڑ گیا تو پاکستان میں خوراک کا عدم تحفظ آئندہ مہینوں میں مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ پاکستان میں بڑھتا ہوا سیاسی عدم استحکام اور پسماندہ اصلاحات عالمی مالیاتی فنڈ کی جانب سے رقم کے اجرا اور دو طرفہ شراکت داروں کی اضافی مدد روکنے کا باعث بن رہی ہیں۔سیلاب کے اثرات سے صورتحال مزید پیچیدہ،انتخابات سے قبل سیاسی بحران وبدامنی میں بھی بڑھ سکتی ہے۔موجودہ عالمی معاشی سست روی کے دوران بڑھتے عوامی قرضوں سے پاکستان میں جاری مالیاتی بحران مزید گہرا ہوگیا ہے ۔حکام کو اپریل 2023سے جون 2026کے درمیان 77.5 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے واپس کرنے ہونگے جو 2021میں 350ارب ڈالر کی جی ڈی پی کے لحاظ سے بہت زیاد رقم ہے یہ انتباہ شائع ہونے والی تازہ رپورٹ میں کیا گیا ہے ۔بھوک کے دھبے کے عنوان سے شائع رپورٹ جون سے نومبر 2023کی مدت پر محیط ہے جس میں شدید غذائی عدم تحفظ پر ابتدائی انتباہ اقوام متحدہ کے دو اداروں فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن اور ورلڈ فوڈ پروگرام کی جانب سے مشترکہ طور پر شائع کی گئی ہے۔ دونوں اداروں نے رپورٹ میں کہاہے کہ ملک میں بڑھتے عدم تحفظ کے درمیان اکتوبر 2023میں ہونیوالے عام انتخابات سے قبل سیاسی بحران اور شہری بدامنی مزید بگڑنے کا خدشہ ہے ۔
اداریہ
کالم
معاشی بحران سے نکلنے کے لئے سیاسی استحکام ضروری
- by web desk
- مئی 31, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 1222 Views
- 2 سال ago