کالم

معاشی بدعنوانیاں اور سیاسی ذمہ داریاں!

سیاست اور معیشت ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی ترقی ممکن نہیں، اور مضبوط معیشت کے بغیر سیاست کا بوجھ زیادہ دیر تک اٹھایا نہیں جا سکتا۔ مگر ہماری تاریخ اس حقیقت کے برعکس واقعات سے بھری ہوئی ہے، جہاں سیاسی فائدے کے لیے معاشی اصولوں کو قربان کیا گیا، اور مالی بے ضابطگیوں نے ریاستی ڈھانچے کو کمزور کیا۔ ہر دہائی میں کچھ نئے معاملات منظرِ عام پر آئے، تحقیقات ہوئیں، وعدے کیے گئے کہ اب اصلاحات ہوں گی، مگر اکثر اوقات یہ عمل ادھورا رہ گیا۔اگر ماضی کی طرف دیکھیں تو مہران بینک اسکینڈل اور اصغر خان کیس نمایاں مثالیں ہیں، جب مالیاتی اداروں کے وسائل سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہونے کے الزامات سامنے آئے۔ ان معاملات کی قانونی کارروائی کئی برس جاری رہی۔ اس کے بعد NICL زمین اسکینڈل میں سرکاری اراضی کی فروخت پر سوالات اٹھے مگر جواب آج تک نہ مل سکا ۔بینک آف پنجاب–حارِس اسٹیل کیس میں قرضوں کے اجرا پر تحقیقات ہوئیں اور اعلیٰ سطح پر گرفتاری بھی عمل میں آئی، تاہم مکمل ریکوری نہ ہو سکی۔ اسی طرح ڈبل شاہ اسکینڈل اور بعد میں سامنے آنے والی مضاربہ و مشارکہ اسکیموں میں عوام کو سرمایہ کاری پر منافع کا لالچ دے کر رقم جمع کی گئی، لیکن بعد میں یہ معاملات قانونی کارروائی کا حصہ بن گئے۔اوگرا اسکینڈل اور EOBI سرمایہ کاری کیس میں ضابطہ جاتی امور پر سوال اٹھے، جبکہ رینٹل پاور منصوبوں اور ہدیبیہ پیپر ملز کیس پر بھی عدالتوں میں بحث جاری رہی۔اسی دوران تاج کمپنی اسکینڈل ایک منفرد نوعیت کا واقعہ تھا، جہاں مذہبی کتب اور مقدس عنوانات کے ساتھ وابستہ ایک اشاعتی ادارے کے مالی معاملات پر تحقیقات ہوئیں۔ اشتہارات اور تشہیر کے ذریعے سرمایہ کاری کی ترغیب دی گئی، لیکن بعد میں مالی بے ضابطگیوں کے الزامات نے معاملے کو حساس بنا دیا۔حالیہ برسوں میں مالی معاملات کے کئی کیس سامنے آئے، جن میں APP اسکینڈل میں سرکاری ادارے میں فنڈز کے غلط استعمال کی تحقیقات ہوئیں۔ £190 ملین کیس میں بیرونِ ملک سے منتقل ہونے والی رقم کے استعمال پر سوال اٹھے۔پراپرٹی کے شعبے میں بعض بڑے منصوبوں اور جائیدادوں کی قانونی حیثیت پر کارروائیاں ہوئیں۔ پنجاب اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے بعض ادوار میں ہونے والے مالی معاملات کی تحقیقات اینٹی کرپشن کو بھجوائیں۔ عالمی ادارے بھی اپنی رپورٹس میں پاکستان میں شفافیت کے تقاضوں پر زور دیتے ہیں۔آج کے دور میں عوام کو سب سے زیادہ نقصان جعلی ہاؤسنگ اسکیمز، آن لائن بینکنگ دھوکہ دہی اور سوشل میڈیا پر قرض کے جعلی اعلانات سے پہنچ رہا ہے۔ ہزاروں لوگ ایسے منصوبوں میں سرمایہ لگا کر نقصان اٹھا چکے ہیں۔ اب اطلاعات یہ ہیں کہ بڑے پیمانے پر کرپشن کی نئی فہرستیں تیار کی جا رہی ہیں اور حالیہ دنوں میں وزیرِ دفاع نے بھی اپنے بیان میں اس جانب اشارے دیے ہیں، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ مستقبل قریب میں مزید نام سامنے آ سکتے ہیں۔یہ تمام واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ سیاست اور معیشت ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں۔ جب سیاسی نظام کمزور ہو تو معیشت عدم استحکام کا شکار ہو جاتی ہے، اور جب معیشت میں شفافیت نہ ہو تو سیاسی فیصلے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ ضروری ہے کہ احتساب کے عمل کو غیر جانبدار، موثر اور تیز بنایا جائے، تاکہ قومی وسائل کے ضیاع کو روکا جا سکے اور عوام کا اعتماد بحال ہو۔ مضبوط سیاست ہی مضبوط معیشت کی ضمانت ہے، اور دونوں کی بقاء ایک دوسرے کے بغیر ممکن نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے