کالم

معلم کی فلاح اور ٹےچرز ڈے

5اکتوبر کو وطن عزےز سمےت دنےا بھر مےں اساتذہ کا عالمی دن جوش و جذبہ اور احترام سے مناےا گےا ۔راقم اس موضوع پر اظہار خےال کرنا چاہتا تھا لےکن بوجوہ اےسا نہ کر سکا ۔اےک رپورٹ کے مطابق دنےا بھر مےں 7کروڑ سے زائد اساتذہ موجود ہےں اور کئی ممالک مےں 50فےصد اساتذہ غےر تربےت ےافتہ ہےں ۔وطن عزےز مےں اساتذہ کی کل تعداد 60لاکھ کے قرےب ہے جن مےں 32لاکھ سرکاری اور28لاکھ پرائےوےٹ اساتذہ ہےں ۔اس حقےقت سے انکار نہےں کےا جا سکتا کہ کسی بھی معاشرے اور مملکت کے وجود مےں اساتذہ رےڑھ کی ہڈی کی حےثےت رکھتے ہےں ۔قومےں سنگ و خشت اور قصرو اےوان کے مجموعے کا نام نہےں ہوا کرتےں اور نہ ہی ان کی تعمےر سےمنٹ اور گارے کی محتاج ہوا کرتی ہے ۔ملک و قوم کی ترقی کےلئے تازہ فکر ،جوان سوچ اور تخےل کی رعنائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ےہ اےک مسلمہ امر ہے کہ اےک سچا استاد ہی ان اقدار و رواےات کو نہ صرف جنم دےتا ہے بلکہ ان کے نمو اور فروغ کےلئے بھی عملی اقدامات کرتا ہے ۔بد قسمتی سے ہمارے ہاں اساتذہ کرام کے حالات کار کو بہتر بنانے کی طرف توجہ نہےں دی گئی ۔استاد کا مقام و مرتبہ صرف اےک دن منانے سے متعےن نہےں کےا جا سکتا ۔عالمی دن منانا ےا قومی دن منانے کےلئے الےکٹرانک اور پرنٹ مےڈےا پر تشہےری مہم سے عام استاد کی زندگی اور حالات کار مےں کوئی کلےدی فرق نہےں پڑتا ۔رسمی آرائشی اور نمائشی اقدامات کرنے کی بجائے اگر معاشرے اور مملکت مےں اساتذہ کو بہتر معاشی سہولےا ت ومراعات فراہم کی جائےں تو کوئی بعےد نہےں کہ وہ زےادہ دلجمعی اور ےکسوئی کے ساتھ ملت کے نونہالوں اور ملک کے مستقبل کی تعمےر کرنے مےں بھر پور دلچسپی نہ لےں ۔ےہ اےک خوشگوار حقےقت ہے کہ تمام تر اخلاقی قدروں کے انحطاط اور تنزلی کے باوجود ہمارے معاشرے مےں آج بھی استاد کو عزت و احترام کی نگاہ سے دےکھا جاتا ہے ۔عزت و احترام کی خالی خولی نگاہ استاد کے ذاتی احوال و مقامات کو بہتر بنانے مےں معاو ن اور ممد نہےں ہو سکتی ۔کسی بھی معاشرے اور مملکت کے وقارو افتحار مےں اضافہ کےلئے اساتذہ بنےادی کردار ادا کرتے ہےں ۔ترقی ےافتہ معاشروں اور مملکتوں مےں اساتذہ کرام کو معاشرے اور مملکت کا سب سے معتبر اور معزز طبقہ شمار کےا جاتا ہے ۔معززےن کی صف مےں ان کا شمار صف اول مےں ہوتا ہے اور انہےں ان کی علمی و فنی اہلےتوں کی بنےاد پر اعلیٰ ترےن مشاہرے اور اعزازئےے فراہم کئے جاتے ہےں ۔اگر ہم اپنے اساتذہ کا دنےا بھر کے اساتذہ کو دی جانے والی مراعات سے موازنہ کرےں تو حےرت کی بات ہے کہ ہم کسی رےنکنگ مےں ہی نہےں آتے کےونکہ ہم اےک استاد کو 2900ڈالر سالانہ ےعنی55ہزار روپے ماہانہ اوسط تنخواہ دے رہے ہےں جبکہ سوئٹزر لےنڈ مےں اےک لاکھ دس ہزار روپے سالانہ ،کےنےڈا مےں 80ہزار ڈالر ،جرمنی 70ہزار ڈالر ،ہالےنڈ 65ہزار ڈالر ،آسڑےلےا 67ہزار ڈالر ،امرےکہ 63ہزار ڈالر اور ڈنمارک، آسٹرےا ،آئر لےنڈ وغےرہ 60ہزار ڈالر سالانہ تنخواہےں دے رہے ہےں ۔ےعنی ہمارے ہاں اےک استاد کی اوسط ماہانہ تنخواہ 55ہزار بنتی ہے تو مذکورہ بالا ممالک مےں اوسطاً ماہانہ تنخواہ 7لاکھ سے 9لاکھ روپے بنتی ہے ۔وطن عزےز مےں جب اساتذہ سے استفسار کےا جاتا ہے کہ کےسے بسر ہو رہی ہے تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ مہنگائی کے اس دور مےں گزر بسر مشکل ہو گئی ہے ۔ہر روز نئے سے نئے مسائل پےدا ہو رہے ہےں ۔ہم لوگ سفےدپوش ہونے کے ساتھ علم و فکر کے شعبے سے وابستہ ہےں لہذا کوئی چھوٹا موٹا کام نہےں کر سکتے ۔اخراجات تنخواہ سے زےادہ ہےں جنہےں پورا کرنے کےلئے کبھی کسی سے اور کبھی کسی سے قرض لےنا پڑتا ہے ۔پھر ان کی پوری زندگی قرضوں کی زنجےر سے بندھ جاتی ہے اور آنے والی نسل بھی ان سے شدےد متاثر ہوتی ہے ۔ہمےں اساتذہ کی مشکلات اور ان کے حل سے سو فےصد اتفاق ہے مگر اساتذہ کے روےے سے تھوڑا سا اختلاف بھی ہے کہ وہ کوئی قوم تےار نہےں کر رہے ۔ماضی مےں اساتذہ کو جو مقام حاصل تھا اور جس طرح ان کے شاگرد ان کی زندگی مےں ”رول ماڈل“ کے طور پر سمجھتے اور تسلےم کرتے ہوئے ان جےسا بننے کی خواہش اور کوشش کرتے تھے ،سب کچھ عنقا ہو گےا ۔اس کی بنےادی وجہ خود معاشرے اور خاص طور پر صاحبان اقتدار کی طرف سے استاد کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک تھا ۔اےسی صورتحال مےں کوئی اچھا پڑھالکھا ،توانا فکر محکمہ تعلےم مےں جانے کےلئے خود کو تےار نہ کر پاتا ۔چنانچہ اےسے لوگ بھی تعلےم کے پےشے کو اختےار کرنے لگے جنہےں کسی اور پےشے ےا کسی دوسرے سرکاری محکمے مےں ملازمت نہےں ملتی تھی ۔اےسے اساتذہ کی بدولت جنہےں نہ خود تعلےم سے دلچسپی تھی نہ تعلےم پھےلانا ان کا مقصد حےات تھا ۔تعلےم کا تو گوےا بےڑا غرق ہو گےا اور طلباءنے بھی تعلےم کو صرف حصول ملازمت کا ذرےعہ سمجھ لےا ۔حال ہی مےں اےک سروے سے ےہ صورتحال سامنے آئی ہے کہ 76فےصد اساتذہ کسی نہ کسی طور پر ذہنی دباﺅ کا شکار ہےں اور ان مےں اکثرےت اےسے افراد کی ہے جو ماےاتی دباﺅ کا شکار ہےں ۔جہاں تک نجی اداروں کی بات ہے اکثر نجی تعلےمی ادارے محض دولت کمانے کی فےکٹرےاں بن کر رہ گئے ہےں ۔بعض کی فےسےں اتنی زےادہ ہےں کہ عام آدمی اپنے بچوں کو وہاں داخل کرانے کا سوچ بھی نہےں سکتا ۔حکومت کو اس طرف بھی توجہ دےنی چاہےے ۔ےہ اےک حقےقت ہے کہ حکومت کے پےش کردہ اصلاحات کے پروگرام محض اس لئے نتائج سے محروم رہتے ہےں کہ ان کا اعلان کرنے سے قبل جملہ احوال و کوائف کا بھرپو تجزےہ نہےں کےا جاتا ۔بےوروکرےسی کے چند شہ دماغ آرام دہ کمروں مےں بےٹھ کر نمبر شماری کےلئے کاغذ بازی کرتے ہےں ۔اس کاغذ بازی کو وہ مروجہ اصطلاح مےں پےپرورک کا نام دےتے ہےں ۔ےہ کاغذی کارکردگی زبانی جمع خرچ کی طرح اکثر بے سود رہتی ہے ۔آج اساتذہ کئی مسائل کا شکار ہےں ۔ستر فےصد اساتذہ کو گھروں سے دور تعلےمی اداروں مےں پڑھانے کےلئے پبلک ٹرانسپورٹ مےں ذلےل و خوار ہونا پڑتا ہے بالخصوص خواتےن اساتذہ کو دوران سفر بڑی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور جو کنوےنس الاﺅنس دےا جاتا ہے وہ انتہائی قلےل اور نہ ہونے کے برابر ہے ۔اساتذہ کےلئے چھٹےوں کا تصور ختم ہو چکا ہے ۔ان کی استحقاقےہ چھٹی پر بےن لگا دےا گےا ہے حالانکہ ےہ اساتذہ کا حق ہے ۔اساتذہ کو غےر تدرےسی ڈےوٹےز تفوےض کر دی جاتی ہےں ۔اساتذہ اگر اپنے جائز حقوق کےلئے آہ و بکا کرےں تو ان کی آواز دبانے کےلئے انتقامی کاروائےاں اور تشدد کا نشانہ بنانے سے بھی گرےز نہےں کےا جاتا اور ان پر اےف آئی آرز تک درج کر دی جاتی ہےں ۔اساتذہ سے اےسا سلوک کسی بھی مہذب معاشرے مےں روا رکھنے کا تصور تک نہےں کےا جاتا ۔پے پروٹےکشن 14ہزار SSEsکی مستقلی ،ٹےچرز پےکج کی منسوخی جےسے دےرےنہ مسائل حل طلب ہےں ۔گزشتہ چار سالوں سے اساتذہ کی ہزاروں آسامےاںخالی پڑی ہےں ۔سکولوں کو NSBگرانٹ بروقت اور مکمل نہےں ملتی ۔وزےر اعلیٰ پنجاب پروےز الٰہی نے ٹےچرز ڈے پر کہا کہ اساتذہ قوم کے محسن ہےں ۔مسائل حل کرنے کےلئے فول پروف سسٹم بناےا جائے لےکن ان کی طرف سے بےان شاےد زبانی کلامی بےان ہی ہے جس کا عمل سے کوئی تعلق نہےں ۔آخر مےں وطن عزےز کے ارباب اختےار و اقتدار سے اپےل ہے کہ اساتذہ کو استحصال سے نجات دلائی جائے اور ان کے قانونی اور انسانی حقوق بحال کئے جائےں ۔سلام ٹےچرز ڈے کے حوالے سے بھی ارباب اقتدار سے اپےل ہے کہ محض ہاتھ ہلا کر سلام کر دےنا کافی نہےں ہے ۔ان کو کھانے پےنے کو چاہےے اور ان کے قانونی حقوق کو پامال نہےں بلکہ بحال کےا جائے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے