کالم

مقدس پیشہ یادھوکہ دہی۔۔۔!

انسانی جان کا تحفظ ہم سب کی ذمہ داری ہے اور انسانی صحت پر ہر گز سمجھوتا نہےں کےا جا سکتا ۔وطن عزےز مےں غےر قانونی کلےنکس ،ہسپتال ،مےڈےکل سٹورز ،زائد المعےاد ممنوعہ اور غےر قانونی ادوےہ کی فروخت کی فراوانی ہے ۔ہوس زر مےں مبتلا انسانےت کے دشمن ،صحت کے نام پر موت بانٹنے مےں مشغول ہےں ۔کچھ کوالےفائڈ ڈاکٹرز بھی ان غےر قانونی اور غےر اخلاقی دھندے مےں ملوث ہےں ۔اتائےت نے خطرناک اژدھے کا روپ دھار لےا ہے ۔اتائی اس قدر دلےر ہو گئے ہےں کہ ان کے دھڑا دھڑ کلےنک کھل رہے ہےں اور جہاں نامور ڈاکٹروں کے ناموں کے بورڈ آوےزاں ہےں ۔عالم ےہ ہے کہ جو لڑکا چند دن کسی نامور ڈاکٹر کے پاس لگا لےتا ہے وہ اپنا کلےنک اور مےڈےکل سٹور کھول لےتا ہے جہاں پر ےہ ہر قسم کے غےر قانونی اور غےر اخلاقی دھندا کرتے ہےں ۔ ناظرےن ذرا غور کرےں ۔ آزاد کشمےر مےں گردوں کی غےر قانونی پےوند کاری کرنے والا اےک موٹر سائےکل مکےنک نکلا جو اےک سرجن ڈاکٹر کے ساتھ مل کر گردوں کی غےر قانونی پےوند کاری کر رہا تھااور اس کے ذمہ کام مرےض کو بے ہوش کرنا تھا ۔ المےہ یہ کہ وہ انجکشن بھی جو کسی غےر ملک سے درآمد کئے گئے ۔ان کے لگانے سے ملک بھر مےں قرےباً سو کے قرےب افراد کی بےنائی جاتی رہی ۔یہ ایک مشہور واقعہ تھا جو ہم کافی عرصہ تک سنتے رہے ،ان کے خلااف کیا ہوا،کسی کے علم میں نہیں۔حقےقت حال اس وقت کھلی جب آنکھےں کھو دےنے والوں کی اےک بڑی تعداد لاہور کے ہسپتالوں مےں پہنچی تو سوشل مےڈےا کی مہربانی سے مکروہ کرداروں سے پردہ ہٹا ۔ سوال ےہ ہے کہ آےا مضر صحت انجکشن ،سب سٹےنڈرڈ انجکشن درآمد کئے گئے ،انجکشن اےکسپائر ہو چکے تھے ،ےا درآمد ہوئے ہی نہےں اور کسی مارکےٹ کے تہہ خانے مےں تےار کئے جا رہے تھے ۔انسانوں کی زندگےوں سے کھےلنے کا ےہ پہلا واقعہ نہےں ہے لاہور مےں ہی سرکاری ہسپتال مےں شعبہ امراض دل مےں ،دل کے مرےضوں کو جعلی سٹنٹ ڈالے جا تے رہے ۔اس خبر کی تشہےر پر انکوائری ہوئی تو معلوم ہوا کہ جعلی کمپنی دس ہزار روپے مےں فی عدد جعلی سٹنٹ ہسپتال کو فروخت کرتی تھی جس کا مرےضوں سے اس زمانے مےں ڈےڑھ لاکھ روپےہ وصول کےا جاتا تھا اور افسوسناک حقےقت ےہ تھی کہ ےہ جعلی مال خرےدنے کا آرڈر دےنے والے ماہر امراض دل تھے جن کو دل کی شرےانےں کھولنے کی ذمہ داری دی گئی تھی اور وہ شرےانوں کو مزےد بند کرنے کا سامان کرنے لگے ۔اس دھندے مےں ملوث جعلی سٹنٹ ڈالنے والے ،خرےدنے والے اور سپلائی کرنے والے کسی اےک شخص کو قرار واقعی سزا نہ ملی ۔ سےاسی اثر ورسوخ اور دباﺅ کی وجہ سے ےہاں کبھی خاطر خواہ نتائج نہےں نکلے ۔انہی دنوں گردوں کی غےر قانونی پےوند کاری مےں ملوث گروہ کے سرغنہ فواد کو گرفتار کےا گےا جبکہ اس کے گروہ مےں شامل آٹھ افراد کو پہلے ہی گرفتار کےا جا چکا ہے ۔اس مےں شبہ نہےں کہ اےسا گھناﺅنا غےر قانونی کاروبار بڑے مگر مچھوں اور پولےس کی معاونت کے بغےر نہےں کےا جا سکتا ۔ےہی وجہ ہے کہ ملزم ڈاکٹر کی گرفتاری سے قبل پانچ پولےس اہلکاروں نے اسے فرار ہونے مےں مدد دی۔ اےک ہفتہ قبل لاہور مےں کاہنہ کے علاقے مےں گردوں کے غےر قانونی ٹرانسپلانٹ کرنے کے مرکزی ملزم کو اس کے ساتھی گن پوائنٹ پر پولےس کی حراست سے چھڑا کر لے گئے ۔معزز قارئےن ماضی مےں بھی لاہور پولےس نے اےک گروہ پکڑا تھا جس نے اےک گھر کرائے پر لے رکھا تھا ۔ےہاں غربت مےں اسےر نوجوانوں کو لاےا جاتا جہاں چند ہزار کے عوض ان کا گردہ خرےد لےا جاتا۔ملزم گرفتار بھی ہوئے لےکن ان کو بھی مقدمے مےں سقم کے باعث سزا نہ ہو سکی ۔آج کے ترقی ےافتہ دور مےں بھی بازار مصر سجا ہے ۔ان گنت بے سہارا تنگ دستی کا اےندھن بنے ،مفلوک الحال انسان مجبور ہو جاتے ہےں ہر اس چےز کو بےچنے پر جو ان کی دسترس مےں ہوتی ہے ،جو بک سکتی ہے ،کسی کے جسم مےں گردہ ہے تو وہ منڈی مےں لے آئے گا ۔رگوں مےں دوڑتے لہو کا اگر کوئی خرےدار ہے تو وہ اسے پےش کرنے مےں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہےں کرے گا ،جس مال کی منڈی مےں طلب ہو گی مفلس کی مجبوری اور ضرورت اسے وہاں لے آئے گی ۔
راقم کو سابق وزےر اعظم نواز شرےف کے دور کا وہ مقروض ےاد آ رہا ہے جو قرض کا سود ادا نہےں کر سکتا تھا ۔اےک روز خواجہ رےاض کی کھلی کچہری مےں پہنچا ،زنجےر عدل ہلائی ،فرےاد کنا ں ہوا کہ وہ سود ادا نہےں کر سکتا وہ اپنا گردہ بےچنا چاہتا ہے جو مےری سب سے قےمتی متاع ہے ۔وزےر اعظم سے کہو اسے خرےد لے ےا مےرا سود معاف کرا دے ۔ےہ حال سنانے کا مقصد ےہی ہے کہ قرض اور سود کے شکنجہ مےں گرفتار بے بس افراد اپنے گردے تک بےچنے کےلئے تےار ہو جاتے ہےں کےونکہ ان کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہےں ہوتا ۔گردہ فروشی کا ناجائز کاروبار کرنے والے گروہ کے ارکان جو ڈاکٹر ہےں وہ کےسی مسےحائی کر رہے ہےں ،ڈاکٹری کا توپےشہ ہے دکھ درد دور کرنے کا ۔مسےحا تو زخموں پر مرہم رکھتے ہےں ،حوصلہ دےتے ہےں ،حوصلہ شکن نہےں بنتے ۔ےہ کےسے مسےحا ہےں جو غرےبوں اور کمزوروں کو زندہ درگور کر کے ،ےہ انسانےت کے چارہ ساز مسےحا اس انتہا کو کےوں پہنچ گئے ۔مسکراہٹےں بانٹنے والے کرب مےں تو مبتلا نہےں کرتے ۔ہمارے ہاں ڈاکٹری کا پےشہ اگر اےک طرف مسےحائی ہے تو دوسری طرف پےسہ بنانے کی مشےن بھی ہے ۔v

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے