تحریک پاکستان میں خواتین نے خاموش مگر ناقابل فراموش کردار ادا کیا ، 1940 میں قائداعظم نے دوٹوک انداز میں کہا تھا کہ ” عورتوں کو چاہے کہ وہ اپنے عمومی سیاسی شعور کے احساس کو بیدار کریں، انھیں عملی سیاست میں مردوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہونا چاہے” تاریخ بتاتی ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے مذکورہ بیان کے بعد تحریک پاکستان میں خواتین کے کردار میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا، اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ اس دور میں مسلم خواتین میں روایت پسندی اور پردے کے حوالے سے حساسیت آج سے کہیں بڑھ کر تھی، بظاہر قیام پاکستان کے فورا بعد خواتین کا پاکستانی سیاست میں کردار ہمیں کم دکھائی دیا مگر بیگم شائستہ اکرام اللہ اور بگیم جہاں آرا شاہنواز جیسی نامور خواتین بدستور متحرک رہیں ، دونوں خواتین کی کوشش تھی کہ قیام پاکستان کے بعد سیاسی، معاشی اور سماجی اعتبارے سے خواتین کسی طور پر نظرانداز نہ ہوں، تحریک پاکستان میں نمایاں کردار ادا کرنے والی مذکورہ خواتین اپنے مقصد کو لے کر کسی حد تک یوں کامیاب رہیں کہ انھوں نے حقوق نسواں بارے اسمبلیوں سے چند قوانین بھی منظور کروا لیے، ادھر قائد اعظم کی شخصیت میں تضاد کا شائبہ تک نہ تھا مثلا اگر وہ مسلم خواتین کو الگ وطن کے حصول کےلئے متحرک کرنے کی کوشش کرتے رہے تو ان کی اپنی بہن فاطمہ جناح نے سیاسی میدان میں بڑھ چڑھ کر کردار ادا کیا، فاطمہ جناح کا تو معاملہ یہ رہا کہ انھوں نے اپنے بھائی کے انتقال کے بعد بھی پاکستان کی بہتری اور ترقی کے لیے سیاسی جدوجہد جاری رکھی، مثلا 1964 میں ایوب خان کے خلاف بطور صدارتی امیدوار بن کر محترمہ فاطمہ جناح نے تاریخ رقم کردی، عمراور صحت مثالی نہ ہونے کے باوجود فاطمہ جناح نے ایسی کامیاب صدارتی مہم چلائی کہ بعض حلقوں کے بعقول اگر مبینہ دھاندلی نہ ہوتی تو مادر ملت کی کامیابی یقینی تھی، خواتین کو سیاسی اور معاشرتی طور پر خودمختار بنانے کے حوالے سے یہ سوال بھی کلیدی اہمیت کا حامل ہے کہ کیا یہ مسلہ محض پاکستان تک محدود ہے یا پھر دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی یہ چیلنج موجود ہے،در حقیقت عصر حاضر کے ہر جمہوری اور ترقی یافتہ ملک کی تاریخ اس امر کی گواہی دیتی ہے کہ اس کے ہاں کیوں اور کیسے خواتین مسائل سے دوچار رہیں، یعنی مذہب اور روایات کی بنیاد پر خواتین کو کن کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، امید افزا یہ ہے کہ پاکستان میں بتدریج بہتری کا عمل شروع ہوچکا یقینا ایسا بھی نہیں کہ خبیر تا کراچی خواتین کو درپیش مسائل کے حوالے سے مکمل طور پر اطمنیان کا اظہار کیا جاسکے، 2017 کی مردم شماری کے مطابق آبادی میں خواتین کا تناسب 49 فیصد تھا یعنی کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے، اب سوال یہ ہے کہ کیا ملکی آئین خواتین کو مکمل طور پر تحفظ فراہم کرتا ہے، اس کا جواب کچھ یوں ہے کہ آئین کی شق 4 کے مطابق ہر فرد بالاتفریق مرد ہو یا عورت کو قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے زندگی گزانے کا حق رکھتا ہے، آئین کا آرٹیکل 25 مرد اور عورت کےلئے مساوات اور قانون کے مساوی تحفظ کو یقینی بناتا ہے، آئین کے آرٹیکل 25 میں خواتین اور بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ہدایت کی گی ہے،آرٹیکل 26 اور 27 عوامی مقامات تک خواتین کی باآسانی رسائی اور ملازمت کے حق کی ضمانت دیتا ہے، آئین کے آرٹیکل 11 انسانی سمگلنگ کے ساتھ جسم فروشی پر بھی پابندی ہے، آرٹیکل 32 میں مقامی حکومتوں کے نظام میں خواتین کو خصوصی نمائندگی دینے کی ہدایت ہے، غرض ہمارے رائج آئین میں ایسی بے شمار شقیں ہیں جو خواتین کو بااختیار بناتے ان کو معاشرے کا کارآمد شہری بنانے کی تاکید کرتی ہیں، پوچھا جاسکتا ہے کہ اس جشن آزادی کے موقعہ پر پاکستانی خواتین کی بہتری کے لیے کیا اہداف مقرر کیے جاسکتے ہیں، یقینا خواتین کے مسائل خواتین ہی بہتر انداز میں حل کرسکتی ہیں چنانچہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ عورت کو خود مختار بنانے کا عمل گھر سے شروع کیا جائے، باپ اور ایک بھائی ہی کسی خاتون کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کے حوالے سے کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں، وطن عزیز میں بتدریج ہی سہی مگر یہ تاثر ختم ہورہا ہے کہ یہ صرف مردوں کا معاشرے ہے اوراس میں خواتین کی کوئی جگہ نہیں، بلاشبہ کوئی بھی معاشرہ جمود کا شکار نہیں رہ سکتا، ٹیکنالوجی کے اس دور میں پاکستانی خواتین خود کو تیزی سے منوا رہی ہیں، آج ہم اپنے گردوپیش باآسانی سے دیکھ سکتے ہیں کہ تینوں مسلح افواج میں خواتین کی نمائندگی موجود ہے، عدالتی نظام میں سپریم کورٹ سے لے کر ضلعی عدالتوں تک خواتین وکلا اور ججز کا ہونا یقینا حوصلہ افزا ہے، محکمہ پولیس میں بھی ہماری خواتین اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں، قدرت کا ایک قانون یہ بھی ہے کہ تبدیلی اچانک نہیں آیا کرتی، وطن عزیز میں بہتری کا عمل کسی نہ کسی شکل میں آگے بڑھ رہا ہے، وہ وقت دور نہیں جب ہمارے ملک کی آدھی آبادی کا بڑا حصہ تعمیر وترقی میں یوں اپنا کردار ادا کرے گا کہ قیام پاکستان کے حقیقی مقاصد کا حصول ممکن دکھائی دینے لگے گا۔