کالم

موبائل فونز پر ٹیکسز

پاکستان میں موبائل فونز پر عائد ٹیکسز اور ڈیوٹیز ایک عرصے سے عوامی بحث کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ آج کے دور میں جہاں ڈیجیٹل سہولیات تیزی سے روز مرہ زندگی کا حصہ بنتی جارہی ہیں موبائل فون صرف رابطے کا ذریعہ ہی نہیں رہے بلکہ تعلیم ، کاروبار خریداری اور معلومات تک رسائی کا بنیادی وسیلہ بن چکے ہیں ۔ اس وقت ملک میں تقریبا 198 ملین موبائل صارفین موجود ہیں، ٹیلی ڈینسٹی 10. 80 فیصد ہے جبکہ 150ملین سے زائد افراد براڈ بینڈ انٹرنیٹ استعمال کر رہے ہیں۔ ایسے میں موبائل فونز کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ، تاہم ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ موبائل فونز پر عائد ٹیکسز اور ڈیوٹیز کا ذمہ دار پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ در حقیقت موبائل فونز پر تمام ٹیکسز اور ڈیوٹیز ایف بی آر وصول کرتی ہے، جبکہ پی ٹی اے کا اس مالیاتی عمل سے کوئی تعلق نہیں۔یہ امر واضح موبائل رہنا چاہیے کہ ایف بی آرہی وہ ادارہ ہے جو مو بائل ڈیوائسز پر ٹیکس عائد کرنے ، اس کی وضاحت دینے اور اس کی وصولی کا مکمل اختیار رکھتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ایف بی آر نے کئی قانونی نوٹیفکیشن جاری کیے ہیں، جن میں ایس آر او 2019/(1)50 اور 2019/(1) 51 اور کسٹر جنرل آرڈر 01 آف 2024 شامل ہیں جوان تمام ٹیکس کی بنیاد فراہم کرتے ہیں ایف بی آر مختلف ماڈلز اور کیٹیگریز کے لیے وقتا فوقتا میکس چارٹس جاری کرتا رہتا ہے، جو ایف بی آر کی ویب سائٹ پر دستیاب ہوتے ہیں۔ موبائل رجسٹریشن کے دوران جو بھی ادائیگی کی جاتی ہے، وہ برادر است ایف بی آر کے اکانٹ میں جمع ہوتی ہے۔پی ٹی اے پر ٹیکسز کا الزام دینا نہ صرف نالہ انہی کوجنم دیتا ہے بلکہ عوامی بحث کو غلط سمت میں موڑ دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی اے نہ تو کوئی ٹیکس عائد کرتا ہے اور نہی کوئی مالی وصولی کرتا ہے۔ پی ٹی اے کا کردار صرف ریگولیٹری ہے، یعنی ٹیلی کام سروسز کی نگرانی ، معیار کی جانچی اور صارفین کی شکایات کا ازالہ ور ہنمائی تک محدود ہے، نہ کہ ٹیکس وصولی ۔ اس فرق کو سمجھنا ضروری ہے لیکن عمومی طور پر سوشل میڈیا ، مارکیٹوں اور روز مرہ گفتگو میں پی ٹی اے ٹیکس ” جیسی غلط اصطلاح عام طور پر رائج ہو چکی ہے جو حقائق کے منافی ہے۔موبائل فونز کی قانونی رجسٹریشن اور ٹیکس ادائیگی کے عمل کو سمجھنے کے لیے ہمیں 2019 میں لانچ کیے گئے ڈی آئی آر بی ایس (DIRBS) نظام کو دیکھنا ہوگا ۔ یہ نظام ” ٹیلی کام پالیسی 2015 کے تحت متعارف کروایا گیا تا کہ پاکستان میں اسمگل شدہ، نان کمپلائینٹ یا جعلی موبائل فونز کو بلاک کیا جا سکے۔ یہ مسلم GSMA معیارات اور پی ٹی اے کے ٹائپ اپروول اصولوں کے مطابق کام کرتا ہے۔ DIRBS پی ٹی اے، ایف بی آر، جی ایس ایم اے، موبائل نیٹ ورک آپر یٹرز اور صارفین کو ایک خود کار ڈیجیٹل سٹم کے تحت باہم مربوط کرتا ہے۔ جو رجسٹریشن ، تصدیق اور ادائیگی کے تمام مراحل کا احاطہ کرتا ہے۔ اس نظام کے ذریعے صارفین موبائل فون کی رجسٹریشن (8484) یا DIRBS ویب پورٹل کے ذریعے کر سکتے ہیں۔ جب فون کا IMEI نمبر سٹم میں درج کیا جاتا ہے تو ایف بی آر کی جانب سے مقررکردہ ٹیکس کے مطابق ایک پینٹ سلپ آئی ڈی (PSID) جاری ہوتی ہے۔ صارف یہ رقم براہ راست بنک کے ذریعے ایف بی آرکو ادا کرتا ہے، اور ادائیگی کی تصدیق کے بعد فون کو وائٹ لسٹ کر کے پاکستانی موبائل نیٹ ورکس پر فعال کر دیا جاتا ہے۔ رجسٹریشن کی حیثیت ایس ایم ایس، ویب سائٹ یا DIRBS ایپ کے ذریعے معلوم کی جاسکتی ہے ۔ اوورسیز پاکستانیوں کیلئے حکومت نے رجسٹریشن میں سہولت فراہم کرنے کیلئے خصوصی مراعات بھی متعارف کروائی ہیں، جن میں 60 دن کے اندر رجسٹریشن پر 10 فیصد ٹیکس رعایت اور ہر وزٹ پر فون کی 120 دن کیلئے عارضی طور پر مفت رجسٹریشن شامل ہے۔ ان اقدامات سے قانونی درآمدات کو فروغ اور اوورسیز پاکستانیوں کو مدد فراہم کرتا ہے۔ ٹیکس سے متعلق تمام سوالات کیلئے صارفین ایف بی آر ہیلپ لائن 772-772-111-051یا ای میل helpline @fbr.gov.pk پر رابطہ کر سکتے ہیں اس پورے عمل میں پی ٹی اے کا کردار تکنیکی معاونت اور رہنمائی تک محدود ہے، پی ٹی اے روزانہ سینکڑوں شہریوں کی رہنمائی اور مسائل کے حل میں مصروف عمل رہتا ہے۔ صرف 2024 میں پی ٹی اے کو DIRBS سے متعلق 1,99,722 شکایات موصول ہوئیں ، جن میں سے 99.9 فیصد کا کامیابی سے ازالہ کیا گیا۔ روزانہ اوسط 150 سے 200شہری پی ٹی اے کے مرکزی دفتر میں رجوع کرتے ہیں۔ رجسٹریشن یا تکنیکی مسائل کے لیے پی ٹی اے کی ہیلپ لائن 55055-0800 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ پی ٹی اے اپنی خدمات تمام صارفین کو بغیر کسی فیس کے فراہم کر رہا ہے۔پی ٹی اے نہ صرف ایک فعال ریگولیٹری ادارہ ہے بلکہ ملکی موبائل مینو فیکچرنگ انڈسٹری کو بھی فروغ دے رہا ہے۔ صرف 2024 میں 3-3 کروڑ موبائل فون پاکستان میں تیار کیے گئے جبکہ 2025 کے ابتدائی پانچ ماہ میں مزید 12.81 ملین فونز مقامی طور پر بنائے گئے۔ اس سے درآمدی انحصار کم ہونے اور خود کفالت کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ یہ پیش رفت مقامی صنعت اور روزگار کے مواقع میں اضافے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔ مزید برآں پی ٹی اے کی جانب سے قومی خزانے میں جمع کی گئی رقوم بھی قابل ذکر ہیں، جن میں 22-2021میں 112.71 ارب روپے 23-2022میں 99ارب روپے اور 24-2023میں 54 ارب روپے شامل ہیں۔ یہ تمام آمدن پی ٹی اے کی لائسنس فیس، اسپیکٹرم نیلامی اور دیگر ضوابطی اقدامات سے حاصل ہوئی اس کے ساتھ ساتھ پی ٹی اے ملک بھر میں ٹیلی کام سروسز کے معیار کو جانچنے کیلئے با قاعدہ سروے کرتا ہے، اور خراب کارکردگی کی صورت میں لائسنس یافتہ کمپنیوں کو و کازنوٹسز اور جرمانے بھی عائد کرتا ہے۔ اس کے علاوہ پر یونیشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کے تحت آن لائن مواد کی نگرانی، غیر اخلاقی بخش ، نفرت انگیز اور بچوں کے لیے نقصان دہ مواد کو بلاک کرنے جیسے اہم فرائض میں بھی سرگرم عمل ہے۔اگر چہ موبائل فونز پر عائد ٹیکس اور ڈیوٹیز قومی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہیں، تاہم ان ٹیکسز کی شرح پر تنقید ایک فطری عمل ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تنقید اور اصلاحات کا رخ درست سمت میں ہو۔ عوامی سطح پر خلاف انہیوں کے بجائے درست معلومات کا فروغ نہایت اہم ہے۔ ایک تجویز یہ ہے کہ پرانے یا درمیانے درجے کے فونز پر ٹیکس کم کیا جائے، جس کیلئے GSMA TAC ڈیٹا ہیں کے ذریعے ماڈلز کو کیلیگر ائز کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح مہنگے فونز پر ٹیکس کی شرح کو متوازن بنا کر قانونی رجسٹریشن کی ترغیب دی جاسکتی ہے۔ اس سے ٹیکس نیٹ میں میں بھی اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ عوام میڈیا اور صارفین کو اس فرق کو سمجھنا چاہیے کہ ٹیکس کا ذمہ دار ادارہ ایف بی آر ہے نہ کہ پی ٹی اے۔ پی ٹی اے ایک ریگولیٹری ادارہ ہے جو ملک کے ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی ترقی معیار اور تحفظ کیلئے کوشاں ہے۔ درست معلومات پر مبنی مکالمہ ہی ملک کو بہتر پالیسی سازی ڈیجیٹل شمولیت اور قانونی درآمدات کی راہ پر ڈال سکتا ہے باشعور شہری ہی بہتر پالیسی اور مضبوط معیشت کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے