1953 ءمیں قادیانی تحریک کے دوران امام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کوقادیانی مسئلہ تحریر کرنے پر فوجی عدالت نے سزائے موت کا حکم سنایا اور انہوں نے اس سزا کے خلاف مقررہ مدت میں اپیل کرنے کی اجازت دی گئی تاہم انہوں نے یہ کہہ کر اپیل کرنے سے انکار کر دیا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے زندگی عطا کی ہے تو کوئی اس سزا پر عمل درآمد نہیں کر سکتا۔ اس سے مجھے شہادت کا رتبہ مل رہا ہے اس لئے وہ اس کے خلاف اپیل نہیں کریں گے۔
مولانا مودودیؒ کے صاحبزادے عمر فاروق نے ملتان جیل میں مولانا ؒ کے شب و روز بارے بتاتے ہوئے کہا کہ اباجان فرماتے ہیں کہ جب مجھے لاہور سے ملتان جیل لے جایا گیا تو دوپہر کا وقت تھا۔ جو کمرہ دیا گیا تھا اس میں چھت کا پنکھا نہیں تھا اور نلکے کی جگہ ہینڈ پمپ تھا۔ یہ اے کلاس قیدی کا کوارٹر تھا۔ سی کلاس کا ایک مشقتی (قیدی ملازم) دیا گیا تھا، جو بیٹھا انتظار کر رہا تھا۔ تقریبا 40 سال کا خوب تنومند آدمی تھا۔ پہلے تو اس نے مجھ کو غور سے دیکھا اور پھر یکدم اٹھ کھڑا ہوا۔ جلدی جلدی سامان سنبھالا۔ ہینڈ پمپ چلا کر غسل خانے میں پانی رکھا اور کہنے لگا: میاں جی، نہا لیجئے۔ میں غسل خانے سے نکلا تو دیکھا کہ پورے کمرے میں ریت بچھی ہوئی ہے اور اس پر پانی چھڑک کر، چارپائی بچھا کر اس پر بستر کر دیا گیا ہے۔ میں نے پوچھا: پہلے تو اس کمرے میں ریت نہیں تھی، یہ کیوں بچھائی ہے؟ تو وہ کہنے لگا: گرمی بہت ہے، میں اس ریت پر پانی ڈالتا رہوں گا تاکہ کمرہ ٹھنڈا رہے اور آپ دوپہر کو آرام کر سکیں۔
جتنی دیر میں مَیں نے ظہر کی نماز پڑھی، اتنی دیر میں اس نے کھانا تیار کرلیا اور بڑے سلیقے سے لا کر میرے سامنے رکھا۔ ساتھ میں بڑی معذرت کرتا رہا کہ مجھے آپ کے ذوق کے متعلق کچھ پتہ نہیں ہے، بس جلدی میں جو ہو سکا، کر لیا ہے۔
پھر اس مشقتی نے یہ چیز نوٹ کر لی کہ میں کس وقت کون سی دوا کھاتا ہوں۔ اس کے بعد وہ ناشتے کی، دوپہر کے وقت کھانے کی اور رات کو کھانے کی صحیح صحیح دوائیاں سامنے رکھ دیتا تھا۔ کبھی یہ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آئی کہ تم نے صبح کے وقت کی دوا نہیں رکھی ہے۔ ۔۔۔ ابا جان نے بتایا: اس نے جیل میں میری ایسی خدمت کی اور اس محبت سے خدمت کی کہ میں حیران رہ جاتا تھا۔
ایک دن اس مشقتی نے مجھ کو یہ بتایا: جب اس کوارٹر میں میری ڈیوٹی لگائی گئی تھی تو مجھے بتایا گیا تھا کہ ایک نہایت خطرناک قیدی آ رہا ہے، جس نے حکومت کو سخت پریشان کر رکھا ہے! بس اس کو راہ راست پر لانا ہے۔ اس کو اتنا تنگ کرو کہ خاموشی سے معافی نامے پر دستخط کر دے اور حکومت جو شرائط منوانا چاہے مان لے، بس تمہارا کام اسے ہر طرح سے تنگ کرنا ہے۔ کھانا اتنا بدمزہ پکانا کہ زبان پر نہ رکھا جائے۔ بس جی، میں کوارٹر میں بیٹھا آپ کا انتظار کر رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ذرا دیکھوں تو سہی کہ آج ایسے شخص سے پالا پڑتا ہے؟ آخر میں بھی جرائم پیشہ آدمی ہوں، کسی سے کم تو نہیں ہوں۔ پھر جب آپ اندر آئے تو میں آپ کو دیکھ کر بس سوچتا ہی رہا کہ بھلا آپ جیسے شخص سے بھی کسی کو کوئی خطرہ ہو سکتا ہے؟ میاں جی، آپ کو دیکھتے ہی پہلی نظر میں آپ کی محبت نے میرے دل میں گھر کر لیا۔
پھر ایک روز سپرنٹنڈنٹ جیل آئے اور پوچھا: کوئی شکایت ہو تو بتائیں۔ میں نے کہا: مجھے تو کوئی شکایت نہیں ہے میں بالکل آرام سے ہوں۔ سپرنٹنڈنٹ جیل دوسرے تیسرے دن آتے رہے اور یہی سوال پوچھتے رہے۔ آخر ایک روز پوچھ ہی لیا کہ آپ یا تو تکلفاً یہ کہہ رہے ہیں یا پھر صحیح بات نہیں بتا رہے۔ میں نے کہا: بھائی، اگر کبھی کوئی تکلیف ہوئی تو بلا جھجھک آپ کو بتا دوں گا، فی الحال کوئی تکلیف نہیں ہے۔ اس پر سپرنٹنڈنٹ جیل نے کہا: فلاں فلاں لیڈر اور سیاستدان حضرات اسی جیل کے اسی کوارٹر میں صرف تین دن میں معافی نامے پر دستخط کرکے چلے گئے تھے، یہ معافی نامے حکومت کی فائلوں میں محفوظ رہتے ہیں اور جب یہ حضرات ذرا زیادہ ہی بڑھ بڑھ کر بولتے ہیں، تقریریں کرتے ہیں اور بیانات داغتے ہیں تو ان کو صرف ایک اشارہ کافی ہوتا ہے کہ آپ کا معافی نامہ کل کے اخبارات میں چھپوا دیا جائے گا، بس اتنا سنتے ہی ان کو سانپ سونگھ جاتا ہے اور ایک صاحب تو دو ہی دن میں رو رو کر معافیاں مانگ کر یہاں سے چلے گئے۔ آپ کس قسم کے آدمی ہیں کہ بڑے خوش بیٹھے نظر آرہے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں بالکل آرام سے ہوں۔
کالم
مولانا مودودیؒ کا ملتان جیل میں احوال
- by web desk
- جولائی 13, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 180 Views
- 5 مہینے ago