کالم

مُتشدّد احتجاج، انتشار اور پاکستانی سیاست کے معیار

میجر (ر) ساجد مسعود صادق

یہ بات تحقیق شُدہ ہے کہ احتجاج سے جہاں اصلاح ہوتی ہے وہیں اصلاح سے کہیں زیادہ انتشار اور معاشی نقصان ہوتا ہے۔ لیکن یہ بات تیسری دُنیا کے ممالک کے لیئے ہے جبکہ مغربی ممالک جہاں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہیں وہاں احتجاج کے اثرات منفی کی بجائے مُثبت ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ احتجاجی  پارٹیوں اور اُن کے کارکُنوں کا رویہ اور احتجاج کو مینیج کرنے کی حکومتی صلاحیت  اور نظام بہت بہتر ہے۔ تیسری دُنیا کے ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے یہاں احتجاجی پارٹی یا قوت اور اُس میں حصہ لینے والے کارکن جس انتہاء پسندی کا مظاہرہ کرتے ہیں بات ہمیشہ اُن پر کریک ڈاؤن پر مُنتج ہوتی ہے۔ اس میں سب سے قابل غور بات یہ ہے کہ ان ممالک میں احتجاج کے لیئے مخصوص جگہیں ہیں جس سے کاروبارزندگی اور نظام حکومت مُتاثر نہیں ہوتا اور نہ ہی عام لوگوں کو کسی مُشکل کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے جبکہ یہ پاکستان میں سیاسی  پارٹیوں کی روایت اور ریت ہے کہ جلسہ ہمیشہ وہاں کرو جہاں ہر چیز جام ہو کررہ جائے۔

جہاں تک پاکستان میں سیاسی عدم ِاستحکام  کی تاریخ کی بات کی جائے تو سن 1958ء کے مارشل لاء تک محض دس گیارہ سالوں میں  ہمارے کئی سربراہانِ مملک تبدیل ہوئے لیکن اُس کے بعد مُلک میں صدر ایوب کے دورِ اقتدار کے آخر ی ایام تک استحکام رہا۔ اس کے بعد اُن کے خلاف سیاسی تحریک نے زور پکڑا اور انہیں جنرل یحییٰ کو اقتدار کی بھاگ دوڑ دے کر سبکدوش ہونا پڑا۔ اور اس کا فال آوٹ سانحہ اکہتر کی صورت میں ہوا۔  اسی طرح بھٹو اور قومی اتحاد کے درمیان سیاسی رسہ کشی جاری رہی اور آخرکار اُس کا اختتام جنرل ضیاء کے مارشل لاء پر ہوا۔ جنرل ضیاء طیارہ حادثے کے بعد بے نظیر اور نواز شریف دس سال تک ایک دوسرے کی حکومتیں گراتے رہے اور آخر کار پاکستان کارگل کی جنگ میں اُتر گیا۔ جنرل مشرف کے آٹھ سال سکون رہا لیکن اُس کے بعد پھر پی پی پی اور نون لیگ کی سیاسی جنگ شروع ہوئی اور اس جنگ میں دونوں پارٹیان ایک دوسرے کی حکومت کو گرانے کے چکر میں رہیں۔ نواز شریف  دور کے آغاز میں ہی عمران خان کی احتجاجی تحریک شروع  ہوئی جس میں  126دن کا دھرنا بھی شامل تھا۔

 

ماضی میں بھی پاکستانی احتجاجوں  میں جن عوام  کے حقوق کی جنگ کا دعوٰی کیا جاتا رہا ہے   انہیں خُوب خوار کرنےکے  بعد  کبھی وہ حاصل نہیں ہوئے بلکہ ان حقوق کی آڑ میں ہمیشہ احتجاج کرنےوالی پارٹیاں اپنے سیاسی مقاصد پورا کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔    احتجاج کرنے والوں کا ایجنڈا کتنا بھی نوبل یا جائز کیوں نہ ہو لیکن اُس احتجاج کا کیا فائدہ  جس سے خُون خرابہ ،  لڑائی جھگڑا اور عداوت پنپے، نظام زندگی معطل ہوجائے اور مُلک کی پہلے سے کمزور معاشی حالت کو مزید کچوکہ لگے۔ ضلعی انتظامیہ اسلام آباد نے پاکستان تحریک انصاف کو اسلام آباد میں آج جلسے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کرکے جلسے کا  پہلے سے جاری کردہ "این او سی” منسوخ کردیا جسے  تحریک انصاف کے رہنماؤں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ تحریک انصاف اب  یہی  8 ستمبرکو جلسہ کرے گی۔8 ستمبر  کو ہونے والے جلسے کا اعلان اڈیالہ جیل کے باہر چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر اور اعظم سواتی نے کیا اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ اسلام آباد نے 40 ہدایات کیساتھ پی ٹی آئی کو  جلسے کی نئی تاریخ  کا این او سی جاری کردیا۔ نئے این او سی کے اجراء  کے علاوہ یہ بھی طے پایا ہے کہ  8 ستمبر کو انتظامیہ جلسے کو سیکورٹی فراہم کرے گی اور جلسہ کرنے والے افراد کسی بھی شہری کے بنیادی حقوق کو متاثر نہیں کرینگے اور نوٹیفکیشن کے تحت جلسے کے لیے لوگ شام چار بجے اکھٹے ہونگے، اور 7 بجے پروگرام ختم کرنا ہوگا۔

اس سے قبل  بانی پی ٹی آئی نے27 جولائی سن 2014ء کو بہاولپور میں اسلام آباد میں دھرنے کا علان کیا۔14 اگست 2014 میں عمران خان اور طاہر القادری  نے لاہور سے  اسلام آباد کی طرف مارچ کا آغاز کیا۔ اگلے روز ہی 15 اگست سنہ 2014 کوعمران خان کا لانگ مارچ اسلام آباد پہنچا تو بلیو ایریا ریڈ زون پرروک لیا گیا تھا۔ 17 اگست سنہ 2014 کو عمران خان نے خیبرپختونخوا سمیت اسمبلیوں سے مستعفی ہونے  اور ریڈ زون میں داخل ہونے کا اعلان کیا اور  18 اگست سنہ 2014 دھرنا شرکاء نے پارلیمنٹ ہاؤس کی جانب پیش قدمی  کی پھر  ڈی چوک ایک میدان جنگ بن گیا۔   اس وقت کے وزیراعلیٰ شہبازشریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ایک ہفتے میں 3 ملاقتیں کیں تب جا کر معاملات ٹھیک ہوئے۔  ڈی چوک پر یہ دھرنا 126 دن  تک جاری رہاجس کا اختتام د 17 دسمبر2014ء کو سانحہ آرمی پبلک اسکول پر اختتام ہوا۔            126 دن کے دھرنے کے شرکاء لاہور سے  جس طرح نکلے، جو نقصان قادری صاحب کے مدرسے  کے بچوں کے قتل کی صورت میں ہوا، ڈی چوک میں  احتجاج کرنے اور پولیس والوں کے درمیان جو دھینگا مُشتی اور پولیس اہلکاروں کی جو مارپیٹ کی گئی  اور اُس کے بعد کس طرح دھرنے کے شرکاء نے پارلیمنٹ کے راستے بند کیئے اور پی ٹی وی کی عمارت پر قبضہ کیا یہ سب ریکارڈ کا حصہ ہے۔

اس کے علاوہ سب سے اہم بات اُس وقت کسی بھی چینی سربراہ مملکت کا یہ شاید پہلا دورہ ہوتا جو پاکستان کی معاشی قسمت بدل سکتا تھا لیکن وہ  دورہ بھی اسی احتجاج کی وجہ سے مُنسوخ ہوگیا جس سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے امیج کو جو نقصان پہنچا وہ معاشی نقصان سے بھی زیادہ تھا۔  پھر ایک بار بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں پی پی پی اور  مریم نواز کی سربراہی میں نون لیگ نے اسلام آباد کی طرف مارچ کیا یوں عمران کی حکومت ختم ہونے پر بلاول بھٹو زرداری نے بڑے فخر سے فرمایا Wellcome to Purana Pakistan۔ اسی طرح پی ٹی آئی نے ایک دفعہ پھر حکومت ختم پر اسلام آباد کی طرف مارچ کیا لیکن رینجرز کی بھاری نفری اور تصادم کی وجہ سے اُسے منسوخ کردیاگیا۔            126دن کے  دھرنے کے بعد ایک نئی ڈیویلپمنٹ  یہ بھی ہوئی کہ پاکستان میں میڈیا دن بدن مضبوط ہوتا گیا اور پاکستانی عوام بھی متحرک ہوگئے۔ یہ   پاکستانی سیاست میں ایسا  ٹرننگ پوائنٹ تھا جس کے بعد پاکستانی عوام بالخصوص یوتھ نے ہائپر موڈ  اور مُوڈ اختیار کیا جس سے  پاکستانی سیاست میں تشدد کا آغاز ہوا ۔               اب حال یہ ہے کہ سیاسی مخالفت عداوت میں بدل چُکی ہے اور عدم برداشت اور دوسروں کو اپنے افکار زبردستی منوانے کی رسم چل نکلی ہے جو جمہوریت کی روح کے منافی ہے۔

یکے بعد دیگرے نواز شریف کا زرداری حکومت کے خلاف مارچ، عمران اور ڈاکٹر طاہر القادری کا نواز شریف  حکومت کے خلاف مارچ،  پھر پی ڈی ایم اور  مولانا فضل الرحمٰن کی  پیلی فورس کا  عمران حکومت کے خلاف مارچ اور اب جماعت اسلامی کے بعد  پی ٹی آئی کا مارچ یہ دوعت فکر دیتے ہیں کہ   جس نے اپنی تاریخ کے محض پچھتر سالوں میں چار اپنے ہمسائے سے  اور دو بین الاقوامی جنگیں لڑی ہوں  اُس کی معیشت پر جو بوجھ پڑا ہوگا وہ کتنا زیادہ ہوگا لیکن احتجاجی سیاست اُسے مزید  گھمبیر معاشی عدمِ استحکام کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔تاریخی اعتبار سے پاکستانی سیاست میں احتجاجی سیاست کے لیئے سب سے مشہور کردار قاضی حُسین احمد مرحوم (امیر جماعت اسلامی) ہیں اور آج اتنے سال گُذرنے کے بعد ایک بار پھر اُنہی کی جماعت نے احتجاج میں پہلے کرتے ہو حافظ نعیم کی قیادت میں اسلام آباد کا رُخ کیا۔ ایجنڈا کیا تھا اس مارچ کا؟ کہ بجلی کے بلوں میں کمی کرائی جائے گی اور سوال یہ ہے کہ کیا یہ کمی ہوگئی ہے؟

پاکستانی عوام یہ ہرگز نہیں جانتے کہ بے نظیر دور میں سب سے پہلے آئی پی پییز  سے بجلی کے مہنگے یونٹ کا سودا ہوا اور زرداری دور میں بجلی بالکل غائب ہوگئی  پھر اُس کے بعد نواز شریف نے دوبارہ معاہدے کرکے بجلی پوری کی اور پھرعمران خان کی حکومت نے بھی ان معاہدوں کی تجدید کی۔ حقیقت تو یہ ہے  کہ بجلی مہنگی کرنے کی تمام جماعتیں قصور وار ہیں اور معصوم عوام  اس سے بے خبر ہیں۔  اس سارے معاملہ کوچار زاویوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ مُلک کی کیا ضرورت ہے؟ یقیناً یہ ضرورت سیاسی استحکام ہے جس کے تابع معاشی استحکام ہے۔ دوسرا زاویہ یہ ہے عوام کیا چاہتے ہیں؟ عوام تو  مہنگائی کے مارے ہوئے ہیں اور احتجاج کو اپنے حقوق کی جنگ سمجھتے ہیں تیسرا زاویہ یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں اور لیڈر کیا چاہتے ہیں؟ انہیں تو ہوس اقتدار اور کُرسی کا غم ہے۔ اور چوتھا اور سب سے اہم زاویہ یہ ہے کہ ان احتجاجوں کی سیاست سے فائدہ کس کو ہورہا ہے؟جس کا  جواب  بڑا سادہ  ہے کہ  پاکستان دُشمن قوتیں چاہیں گی کہ پاکستان میں عدم استحکام رہے اور انتشار ہی پھیلا رہے۔

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے