کالم

مکافات عمل اور گردش حالات

مسلمانوں کی زندگی کا فلسفہ ،انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی جزا اور سزا پر مبنی ہے ۔احتساب اور جوابدہی اسلامی نظام زندگی کی اساس ہے ۔یہ دنیا مکافات عمل ہے ۔اس زندگی میں کوئی انسان سزا سے بچ بھی جائے اور جزا سے محروم رہے لیکن دوسری زندگی میں جزا و سزا دونوں سے نہیں بچ سکتا ۔لاہور کے ایک جج نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کا حکم سنایا جو سپریم کورٹ تک برقرار رہا ۔اس جج نے چار گھنٹے تک شہد کی بپھری ہوئی مکھیوں سے اپنے جسم کو کٹوایا اور ان مکھیوں کی وجہ سے جنازہ پڑھنا مشکل ہو گیا ۔ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد اس کی میت کو دیکھنے کیلئے ان کے عزیز و اقرباء کو اجازت نہ ملی لیکن وقت کے حکمران کی موت اس طرح ہوئی کہ اس کے جسم کا کوئی حصہ اس کے پسماندگان تک بھی نہ دیکھ سکے ۔جب حالات بدلتے ہیں تو تغیر کے پہیے کو چلنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔دنیا کا اپنا قانون ہے اور فطرت کا اپنا قانون ۔جو بویا وہی کاٹنا پڑتا ہے ۔آج شاید ریٹائرڈ جنرل فیض حمید اسی مکافات عمل کے تحت کڑے احتساب اور مشکل سے گزر رہے ہیں ۔جنرل فیض حمید کی جو پلاننگ تھی ،یہ بازی الٹی پڑ کر اس شعر کی عملی تفسیر بن گئی ۔
مجھے کسی بھی تعین کا اختیار نہیں
یہ کوئی اور میرے راستے بدلتا ہے
ریٹائرڈ جنرل فیض حمید نے آرمی چیف بن کر پاکستان میں صدارتی نظام نافذ کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا ۔یہ شخص ملک کے سربراہ کے ساتھ مل کر آئندہ دس سال تک اقتدار کے مزے لوٹنے کا پلان بنا رہا تھا ۔آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر)فیض حمیدکو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے ذریعے 14سال قید بامشقت کی سزا سنا دی گئی ہے۔آئی ایس پی آر کے مطابق یہ فیصلہ کسی ایک دن یا ایک الزام کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک طویل جامع اور باقاعدہ قانونی عمل کے بعد سامنے آیا ۔12اگست2024ء کو پاکستان آرمی کے تحت فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کاروائی کا آغاز ہوا جو تقریباً 15ماہ تک جاری رہی ۔اس دوران جنرل فیض حمید پر متعدد سنگین الزامات عائد کئے گئے ،جن میں سیاسی سرگرمیوں میں مداخلت ،آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی ،ریاستی سلامتی اور قومی مفادات کو نقصان پہنچانے والے اقدامات ،اختیارات اور سرکاری وسائل کے ناجائز استعمال اور بعض افراد کو بلاجواز نقصان پہنچانے جیسے الزامات شامل تھے ۔آئی ایس پی آر کے مطابق ملزم کو دفاع کے تمام قانونی حقوق فراہم کئے گئے ،جن میں اپنی مرضی کی دفاعی ٹیم تیار کرنے ،گواہان پیش کرنے اور شواہد کا جواب دینے کا حق شامل تھا ۔طویل سماعتوں اور شواہد کی جانچ کے بعد فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے تمام الزامات ثابت ہونے پر 11دسمبر2025ء کو 14سال قید بامشقت کی سزا سنائی جس کا اطلاق اسی تاریخ سے ہو چکا ہے ،تا ہم ملزم کو اپیل کا مکمل حق حاصل ہے اور اپیل کے فیصلے تک یہ سزا حتمی ہی سمجھی جائے گی ۔فوجی عدالت کا یہ فیصلہ نہ صرف ملک کے سب سے طاقتور ادارے کے اندر موجود ایک اعلیٰ افسر کو احتساب کے دائرے میں لایا ہے بلکہ اس بات کا بھی واضع اشارہ ہے کہ قانون کی حکمرانی سے کوئی بھی بالا ترنہیں ۔پاکستان کی عسکری تاریخ میں ایسے مواقع کم ہی آئے ہیں جب کسی جنرل کو عدالت کے سامنے پیش کیا گیا ہو ۔ان پر الزامات محض قانونی دفعات نہیں بلکہ اس بات کی شہادت ہیں کہ کس طرح ایک کلیدی عہدے پر فائز شخص نے اپنے مطلق ا لعنان اثر و رسوخ کو قومی مفادات کے بجائے شخصی اور گروہی سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے استعمال کیا ۔فیض حمید ،جو حاضر سروس جنرل کی حیثیت سے آئی ایس آئی کے سربراہ مقرر ہونے کے بعد کور کمانڈر بنائے گئے تھے ،انہیں کچھ برس پہلے تک ملک کا ایسا طاقتور انسان سمجھا جاتا تھا جو کسی کی بھی قسمت بدلنے پر قادر تھا لیکن ہر عروج کو زوال مقدر ہے ۔جب فیض حمید کی طاقت رو بہ زوال ہوئی تو وہ لیفٹیننٹ جنرل کی مدت پوری ہونے سے پہلے اسے چھوڑنے پر مجبور ہوئے ۔فوج سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے کے پس پردہ خیال بھی کسی تادیبی کاروائی سے محفوظ رہنا تھا لیکن نوشتہ تقدیر کچھ اور تھا ۔جنرل فیض حمید کیخلاف مقدمہ تو سپریم کورٹ میں ایک ہائوسنگ سوسائٹی کی شکایت پر قائم ہوا تھا ،جسے سپریم کورٹ نے فوج کو ریفر کر دیا تھا کیونکہ ایک سرونگ جنرل کیخلاف سپریم کورٹ براہ راست کاروئی نہیں کر سکتی تھے ۔ریٹائرڈ جنرل فیض حمید کو نہ صرف اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کا ایک اہم رکن سمجھا جاتا تھا جس نے پراجیکٹ عمران کے عمل درآمد میں حصہ لیا ۔2022ء کے آغاز پر کون سوچ سکتا تھا کہ عمران خان اور فیض حمید ایک دن جیل میں ہوں گے اور دونوں کو چودہ چودہ برس کی سزا ہو گی ۔انسان سوچتا ہے کہ وہ ساری عمر ایسے ہی طاقتور رہیں گے ،چیزیں ایسے ہی ان کے کنٹرول میں رہیں گی لیکن یہی گھمنڈ اور غرور انہیں نیچے گرانے کا باعث بن جاتا ہے ۔حامد میر اپنے ایک کالم میں رقمطراز ہیں کہ ایک دن زرداری صاحب نے فیض حمید سے دو افراد کی موجودگی میں کہا کہ اﷲ سے ڈرو کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک دن تمہاری فائل میرے پاس آ جائے اور تمہاری تقدیر کا فیصلہ میرے دستخط سے منسلک ہو جائے ۔فیض حمید نے بڑی رعونت کے ساتھ قہقہہ لگایا اور کہا کہ ایسا کبھی نہیں ہو گا ۔آج آصف علی زرداری صدر پاکستان ہیں اور فیض حمید سزا یافتہ مجرم ہے ۔معزز قارئین یہی مکافات عمل ہے ۔انسان جب اقتدار میں ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو مختار کل سمجھ لیتا ہے ۔اس کے ذہن میں ایک ہی چیز ہوتی ہے ،اسے کوئی پوچھنے والا نہیں حالانکہ ایک ایسی طاقت موجود ہے جس کے سامنے بڑے سے بڑا اقتدار والا سرنگوں ہو جاتا ہے ۔حق تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن مجید میں فرعون اور نمرود جیسے لوگوں کی رعونت کا خاص طور پر ذکر کر کے پیغام دیا گیا ہے کہ غرور اور تکبر کے انجام سے ڈرو ۔کیا وقت تھا جب اقتدار و اختیار پر فیض حمید کی مکمل گرفت تھی ۔ اس ملک میں ان کا طوطی بولتا تھا ۔کوئی بھی سد راہ اور حائل ہونے کو تصور نہ کر سکتا تھا ،بڑے سے بڑا سیاستدان ،بیورو کریٹ اور صحافی انہیں جھک کر سلام کرتے تھے لیکن آج ایک قیدی کی حیثیت سے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔بہر حال یہ فیصلہ جنرل صاحب کیلئے ایک المناک انجام کا مظہر ہے بلکہ یہ ان تمام روایتی تصوررات کو بھی لرزا دیتا ہے جن کے تحت ماضی میں چند عہدوں کو احتساب سے بالا تر سمجھا جاتا رہا ہے ۔اس غیر متوقع اور تاریخی سزائے قید نے قوم میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے کہ آیا احتساب کا یہ سفر محض ایک فرد تک محدود رہے گا یا یہ نظام کی گہرائیوں تک پھیلے گا ۔یہ فیصلہ اس حقیقت کا غماز اور واضع ثبوت بھی ہے کہ وقت کا پلڑا جب بدلتا ہے تو طاقتور ترین عہدے اور طاقتور ترین حکمران تاریخ کے کٹہرے میں بے بس کھڑے دکھائی دیتے ہیں اور یہی حقیقت اور سچائی یاد رکھنے والی ہے کہ مکافات عمل کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا بلکہ یہ چلتا رہتا ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے