کالم

مہنگای میں کمی کے حکومتی دعوے بے بنیاد ہیں

علیمہ خان کہتی ہیں کہ آج کپتان کہہ رہے تھے ، میڈیا کی نوائے حق بند کر دی گئی ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ اسمبلیوں میں بیٹھے لوگ ووٹ سے نہیں آئے بلکہ لائے گئے ہیں ۔ محترمہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ میری بہنوں کو صرف چند منٹ ہی بھائی سے ملاقات کا وقت ملا ۔ ایک وکیل ظہیر عباس کو ایک منٹ ملاقات کی اجازت ملی ، جبکہ سلمان اکرم راجہ سمیت دیگر لائرز کو ملاقات کی اجازت ہی نہیں دی گئی ۔ میں مادام کے اس شکوے کو بالکل بجا سمجھتا ہوں ، میرے خیال میں کسی بھی سیاسی قیدی کی زبان بندی نہیں ہونی چاہیے ، قیدی کے گھر والوں اور وکیلوں کے ملنے پر کسی قسم کی پابندی بھی نہیں ہونی چاہیے ۔ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو کل کو مورخین اس نظامِ حکومت کو جمہوریت نہیں کہیں گا بلکہ جبر و آمریت قرار دیں گے ۔ میڈم مزید فرماتی ہیں کہ بانی نے پارٹی کیلئے ہدایات جاری کر دی ہیں کہ محرم کے بعد حکومت کے خلاف فیصلہ کن تحریک چلائیں اور پی ٹی آئی تیاری کر رہی ہے تحریک چلانے کی لیکن ان کی یہ بات میری سمجھ سے بالا ہے کیونکہ میں یہ سوچتا ہوں کہ کیا یہ محترمہ اپنی بہنوں ، بھابیوں اور بھانجوں کے ساتھ تحریک جلانے نکلیں گی۔؟ پارٹی تو ان کی ٹوٹے ٹوٹے ہو گئی ہے یعنی کہ ٹکڑوں میں تقسیم ہو رہی ہے ۔ سب کی اپنی اپنی ڈفلی ہے اور اپنا اپنا راگ ہے ۔ بلا شبہ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے اور یہ سب سیاسی جماعتوں میں موجود ہے لیکن جو حال ان کا ہے میری توبہ توبہ ۔ جس طرز لیول پہ دھڑے بندیاں ، بدتمیزی اور حماقتیں تحریک انصاف میں ہیں وہ کسی اور سیاسی جماعت میں کہیں نظر نہیں آتیں ۔ اب تو پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں اور یہ لوگ اپنے گندے کپڑے بھیچ چوراھے کے دھونے لگے ہیں ۔ تحریکِ انصاف خیبر پختون خوا کے صوبائی صدر جنید اکبر خان اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور برسر میدان آپس میں اس طرح سینگ پھنسائے کھڑے ہیں جیسے وہ ایک دوسرے کے جانی دشمن ہیں ۔ پارٹی کے صوبائی صدر KPK نے سی ایم کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ جواباً مشیرِ اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے سخت رد عمل دیا اور کہا کہ جنید اکبر خان سے استعفیٰ لے کر اسے گھر بھیجیں اور اس کی جگہ کسی اہل آدمی کو صوبائی صدر بنائیں ۔ پی ٹی آئی کے متعدد رہنما جو ماضی میں مرنے مارنے کے سوا کوئی بات ہی نہیں کرتے تھے لیکن اب انہوں نے عصری تقاضوں کو سمجھ کر اور زمینی حقائق کو جان کر جیل سے خط لکھ کر صرف اور صرف مذاکرات کرنے کا پیغام بھیجا ہے اور اڈیالہ سے محرم کے فوری بعد تحریک چلانے کی ہدایات و احکامات کو اس موضوع پر بات چیت ہونے سے قبل ہی سبوتاژ کر ڈالا ہے ۔ جیل سے شاہ محمود قریشی ، ڈاکٹر یاسمین راشد ، میاں محمود الرشید اور عمر سرفراز چیمہ کی جانب سے لکھا جانے والا یہ خط جس میں سیاسی مذاکرات کو ہی واحد حل قرار دیا گیا ہے در حقیقت یہ خط بالعموم پی ٹی آئی کے ماضی کے سب بیانیوں اور بالخصوص بانی کی عمرانیات کی صریحا نفی ہے ۔ ان حالات میں علیمہ خان صاحبہ کو میرا یہ نیک مشورہ مفت ہے کہ خدارا آپ بھی کیپٹن ثانی بن کر ایک نیا 9 مئی نہ بنا ڈالیے گا ۔ پلیز آپ صبر و حکمت و حوصلے سے کام لیں ، آپ اعتدال و اجتہاد اور اعتماد و اتحاد کے سبز راستوں کا ہی انتخاب فرمائیں ۔ بقول شاعر ۔
اپنی مٹی پہ چلنے کا ہنر سیکھو
سنگِ مرمر پہ چلو گے پھسل جا گے
تیز چلو لیکن تصادم سے بچنا ہے
بھیڑ میں سست چلو گے کچل جائو گے
میڈم علیمہ خان کی خدمت میں بصد تکریم و احترام التماس ہے کہ آپ بانی کو بتلائیں کہ ایک باوقار اور باشعور عوامی لیڈر پھانسی کا پھندہ تو قبول کر لیتا ہے مگر کسی طور پہ بھی کسی خلائی مخلوق سے بات مذاکرات کو درست نہیں سمجھتا ۔ آپ بڑی ہیں اپنے بھائی کو سمجھائیں کہ ایک جمہوری سیاسی لیڈر اہل سیاست کے ساتھ ہی سمجھوتے اور مذاکرات کرتا اچھا لگتا ہے ۔ میں یہ پوچھتا ہوں کہ کب یہ سچ سیاست کے پھول کھلیں گے تو خوشبو ہوگی ۔ آخر کب یہاں جمہوریت کے چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی ۔ ایک عام پاکستانی بڑی ہی مدت سے منتظر ہے کہ کب ہوگا اس نئی سحر کا طلوع جب ہر سو ہریالی ، ہوگی خوشحالی ہوگی اور ہماری زندگی آسان ہوگی ۔ آج تک کسی بھی حکومت نے غریب عوام کو مسائل و مشکلات سے نہیں نکالا ۔ آج بھی ہم غربت ، بیروزگاری اور مہنگائی کی چکی میں پِس رہے ہیں ۔ یہاں جس کو بھی اقتدار ملا اس نے ملک و قوم کو لالی پاپ کے سوا کچھ نہ دیا ۔ یہ شریفز جو گزشتہ 40 سال سے ملک پر مسلط ہیں یہ آج تک اہلِ پاکستان کو پینے کا صاف پانی تک نہ دے سکے ۔ صد افسوس کہ ان تجربہ کاروں کے پاس شوبازیوں اور شعبدہ بازیوں کے سوا کچھ نہیں ۔ ان کے غریب دوستی کے نعرے بالکل بھی درست نہیں۔موجودہ حکومت کے مہنگائی میں کمی لانے کے سب دعوے سراب ہیں اور معیشت کی مضبوطی کے بیانات بھی بے بنیاد ہیں ۔ بجلی پیٹرول ، گیس ، گھی ، چینی ، حتیٰ کہ اشیائے ضروریہ تک کی قیمتیں ایک عام پاکستانی کی پہنچ سے باہر ہیں ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس اتحادی حکومت کو ان انسانی ضروریات کی کوئی فکر ہو ، کوئی احساس ہو ۔ اگر ان ماہر اور تجربہ کار حکمرانوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو چڑیا کھیت چگ جائیں گی اور ہم دیکھتے رہ جائیں گے اور روتے ہاتھ ملتے رہ جائیں گے ۔ بقول اقبال ۔
نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے!
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے