گزشتہ دنوں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مسند اقتدار کے 3 دفعہ مزے لوٹنے اور بین القوامی اسٹیبلشمنٹ کے مجوزہ مقررہ اہداف کے حصول کی ضمانت دینے عوام کو جہالت بیروزگاری بیماری پریشانی غربت اور مسائل کی دلدل میں ڈنکے کی چوٹ پر دھکیلنے کے باوجود چوتھی دفعہ پھر وزیراعظم پاکستان بننے کی کسی پرانے آقا کی حسب سابق اور حسب توفیق گارنٹی پر میاں محمد نواز شریف پاکستان ہی کی اسٹیبلشمنٹ کو پورے کرو فر اور جاہ و جلال سے للکار بیٹھے۔پھر کیا تھا ملک بھر میں واہ واہ اور شیر اک واری فیر کے شادیانے بجانے شروع کر دیے ۔ جب وطن پاک کے مقتدر طاقتوں کو اس سیاسی چورن کی فروخت کا پتہ چلا تو اپنے آپ کو حکمران خاندان کہلانے والی محترمہ مریم صفدر اور سابقہ وزیراعظم شہباز شریف کو فوری طور پر پاکستان سے واپس 24 گھنٹے کے اندر ہی لندن یاترا پر روانہ ہونا پڑا۔جب ہم جیسے ایک صحافی نے سابقہ وزیر قانون رانا ثنا اللہ سے اس سا ری صورتحال کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے جواب دیاتھا کہ یہ ملک ہمارا ہے اور یہ تمام صورتحال وقت کے تقاضے کے عین مطابق ہے ۔ تو راقم انگشت بدندان رہ گیا اور بہت سارے سوالات ذہن میں ابھرنے لگے کہ کیا۔نواز شریف 3دفعہ وزیراعظم بننے اور کرپشن ظلم زیادتی نا انصافی اقربا پروری غربت میں اضافے وغیرہ جیسے مسائل میں خوفناک حد تک بڑھاوے وسائل پر قابض ہونے ملک پاکستان کی ساکھ اور مفادات کو نقصان پہنچانے جیسے جرائم میں ملو ث ہونے کی پاداش میں سزا یافتہ اور اشتہاری ہونے کے باوجود وطن کی مقدس عدلیہ اورپاک فوج کو للکارنے کا اب بھی حق رکھتا ہے؟ کیا جنرل باجوہ ، جنرل فیض حمید جسٹس ثاقب نثار جسٹس آصف سعید کھوسہ ۔جسٹس اعجاز الحسن سمیت دیگر میری مقدس عدلیہ وپاک فوج ایک سزا یافتہ ملزم و قومی مجرم کے سامنے کسی طرح بھی کبھی جوابدہ ہو سکتے ہیں؟کیا سابق مرحوم صدر پاکستان غلام اسحاق خان سے جھگڑنے کے بعد جنرل وحید کاکڑ سے ڈیل کر کے نواز شریف نے جان نہیں بچائی تھی ۔ مرحوم جنرل پرویز مشرف سے جھگڑا کرنے کے بعد نام ای سی ایل میں ڈالنے اور پھر نکلوانے کی اور پھر 1999میں مارشل لا لگنے کے بعد ملک سے بھاگنے کی ڈیل نہیں کی تھی۔؟ کیا عمران خان کے اقتدار سنبھالتے ہی پنامہ لیکس میں مجرم ڈکلیئر ہونے کے بعد جنرل باجوہ سے ہی چوتھی دفعہ پھر ملک سے بھاگنے کی ڈیل نے نہیں کی تھی یعنی کہ میری پاک فوج اور مقدس عدلیہ کو للکارنے والے آل شریف کا اقتدار میری پاک فوج اور پاکستان کی مقدس عدلیہ کی دی ہوئی خیرات ہے۔جنہیں آج یہ تمام احسانات بھول کر للکار رہا ہے ۔را قم اس بات پر بھی پریشان ہے کہ ہر دور میں نواز شریف اینڈ کمپنی وقت کے تقاضے کے فقرے کی مٹی پلید بڑے با اعتماد انداز میں کرتی ہے ۔کبھی یہ کمپنی ضیا الحق کو اصلی شہید کہتی ہے اور وقت بدل جائے تو کہتی ہے کہ نہیں ذوالفقار علی بھٹو اصل شہید تھا یہ کہنا وقت کا تقاضا ہے ۔کبھی وقت کے تقاضے کے مطابق بے نظیر کو غدار کہہ دیتی ہے تو کبھی محب وطن کہہ کر میثاق جمہوریت کر لیتی ہے ۔کبھی وقت کے تقاضے کے مطابق پرویز مشرف کو غدار کہہ دیتی ہے تو کبھی ڈیل کر کے مسیحا کہنا وقت کا تقاضہ سمجھتی ہے ۔کبھی جنرل باجوہ ایکسٹینشن دینا وقت کا تقاضہ سمجھتی ہے تو کبھی جنرل فیض حمید سمیت سب محسنوں کا احتساب کرنا وقت کا تقاضہ بنا لیتی ہے کبھی یہ کمپنی مرزا اسلم بیگ کو کبھی جنرل جہانگیر کرامت کو کبھی جنرل آصف نواز جنجوعہ کو تو کبھی صدر فاروق لغاری کو کبھی صدر غلام اسحاق خان کو تو کبھی وزیراعظم محمد خان جونیجو کو سیکورٹی رسک کہہ دیتی ہے تو کبھی اپنی جان بچانے کےلئے ان سب کو پاکستان کے حقیقی محب وطنوں کا خطاب دیکر اسے وقت کا تقاضا قرار دے دیتی ہے۔الغرض کہ ان کی ان چالبازیوں ، گیدڑ بھبکیوںاور وقت کے تقاضوں کو ہر پاکستانی بخوبی سمجھ چکا ہے۔رہی سہی کسر ان ماضی قریب کے 16مہینوں کے پی ڈی ایم سمیت شہباز شریف کے دور اقتدار نے نکال کر دکھادی ہوئی ہے جس کے نتیجے میں سندھ میں ایم کیو ایم اور پی پی ،کے پی کے میں مولانا فضل الرحمن، سوار ولی خان خیبر پختون خواہ گلگت بلتستان سے ۔ بلوچستان سے نواب اختر مینگل سمیت سب پی ڈی ایم کا اتحادی ہونے کی وجہ سے مکمل طور پر سیاسی ساکھ گنوا بیٹھے ہیں۔جبکہ پنجاب کی عوام تو بہت ہی اچھی طرح جان چکے ہیں کہ ٓال شریف اور پیپلز پارٹی اپنے زور بازو یا سیاسی کارکردگی و تربیت کے بل پر کبھی بھی حکمران نہیں بنے ہیں کیونکہ تاریخ میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو چیف مارشل لا جنرل ایوب خان نے وزیراعظم بنوایا تھا میاں محمد نواز شریف کو ضیا الحق نے اور آصف علی زرداری پاک فوج کی حمایت بے نظیر کی شہادت کو کیش کرا کے پاکستان کے اقتدار پر قابض ہوئے تھے۔اوریہ بھی تاریخ میں لکھا ہوا کہ پیارے راج دلارے کے قومی خزانے سے اربوں روپے معاف کروائے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں آج میرے راج دلارے پاکستان میں بے روزگاری ظلم زیادتی ناانصافی کرپشن بیماری پریشانی غربت مہنگائی اور جرائم کا عفریت روز بروز مزید پھیلتاہی جا رہا ہے۔جس سے عوام کی زندگی اور سانس کا رشتہ ہر گزرتے دن کے ساتھ کمزور ہوتا ہی چلا جا رہا ہے اس سب صورتحال سے پاکستانی قوم یہ بھی سمجھ چکی ہے کہ یہ پی ڈی ایم کا قومی اور مقدس اداروں کو للکارنا اور پھر سمجھوتہ کرنا اور اسے وقت کا تقاضا قرار دینا ان کا یہ ہمیشہ ہر دور میں جھوٹا بیانیہ رہا ہے۔یعنی کہ جب چاہا گریبان پکڑ لیا اور جب ضرورت پڑی تو پاو¿ں پکڑ لیے۔اب نواز شریف اور پی ڈی ایم کا یہ سیاسی چورن میرے راج دلارے پاکستان میں بکنے والا راقم کو تو نظر نہیںآرہا ہے ۔ کیونکہ سچ کا بھی تو کوئی تقاضا ہوتا ہے۔ جمہوریت کا بھی کوئی تقاضا ہوتا ہے۔پاکستان کا بھی کوئی تقاضا ہے اور میرے پاک وطن کی عوام سمیت دنیا بھر میں ایک کروڑ سے زائد رہنے والے پاکستانی اوورسیز کا بھی تو کوئی تقاضا ہے اور راقم پورے وثوق یقین اور اللہ کی رحمت کے سہارے سے بھرپور طریقے سے پر اعتماد بھی کہ موجودہ حالات کے تناظر میں یہ تقاضے میری پاک فوج کے سرخیل حافظ عاصم منیر مقدس عدلیہ کے سربراہ قاضی فائض عیسیٰ مل کر میرے پاکستان کی عوام کی امنگوں کے مطابق بہت جلد پورا کرنے والے ہیں۔