کالم

نئے سیکرٹری اطلاعات و نشریات کی تعیناتی

riaz chu

سیکرٹریٹ گروپ گریڈ 21 کے افسر ظہور احمدصاحب نے وزارت اطلاعات و نشریات کے ایڈیشنل سیکرٹری انچارج کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ محترم ظہور احمد دانشمنداور اپنے فرائض سے بخوبی آگاہ ہیں۔ انتہائی سمجھدار اور خوش گفتار افسر ہیں۔ محترم ظہور احمد کا تعلق ٹوبہ ٹیک سنگھ کے گاو¿ں "سجادہ” سے ہے۔ سابق آئی جی پولیس سردار محمد چوہدری، ظہور احمد کے ماموں تھے۔نہایت صاف ستھری اور سادہ طبیعت کے مالک ہیں۔ عوام کے سارے مسائل سمجھتے بھی ہیں اور ان کے بارے میں آگہی بھی رکھتے ہیں۔ جناب ظہور احمد گورنمنٹ کالج لاہور کے لٹریری سرکل میں مقبول تھے۔وہ راوی کے ایڈیٹر بھی تھے۔ راوی کا ایڈیٹر ہونا بذات خود ایک مقام رکھتا ہے۔ راوی کے سابقہ ایڈیٹرز کی فہرست میں پطرس بخاری اور ن م راشد کے علاوہ پریم ناتھ بھاٹیہ، گور بچن سنگھ، ارمیلا سوندھی، معین قریشی، کمال اظفر، شاہد جاوید برکی، پرویز مسعود، نگار احمد، ہریش چندر، سید محمد جعفری، ضیاءجالندھری، مظفر علی سید، شہزاد احمد، اسداللہ غالب، حنیف رامے، محمود شام، ڈاکٹر اجمل نیازی، اطہر وقار عظیم، سراج منیر، عباس تابش، عبداللہ خان سنبل، عبدالحمید بھٹہ، حسن رضا گوندل، فاطمہ ضیاءڈار اور ڈاکٹر خالد سنجرانی سمیت بہت سے نام شامل ہیں۔وہ اردو، پنجابی، فارسی کے شاعر اور انگریزی کے کالم نگار بھی ہیں۔ ظہور احمد صاحب کا شعری مجموعہ "یہ دل کے سلسلے” شائع ہو چکا ہے۔شاعری میں ہی وہ اپنا تعارف خود کرواتے ہیں۔ایک نظم میں بتاتے ہیں کہ آپ کس گریڈ میں ہیں آج کل، آپ کس وزارت میں ہیں اور آپ کے پاس اندر کی خبر کیا ہے۔ جن بھوتوں اور چڑیلوں کے شہر کے باسی مجھ سے پوچھتے ہیں میں انہیں کیا جواب دوں۔ میرا نام ظہور احمد ہے اور مجھے چاندنی سے ،شام سے ،ہوا سے اور رات کی رانی سے پیار ہے اور پرندوں سے اور پہاڑوں کے نشیب میں پھیلے ہوئے جنگل سے اور گرتے ہوئے پتوں سے بھی کہ جن پر کبھی میں ایک نام لکھا کرتا تھا اور جو مجھے آج بھی اداس کر دیتے ہیں اے حکومتی محل کی غلام گردشوں میں رینگتی ہوئی مخلوق! اگر تجھے یہ عجیب لگے تو حیران مت ہونا کہ میں اس شہر میں نہیں رہتا میں اپنے شہر میں رہتا ہوں۔شاعری میں ظہور احمد کسی بھی لمحے اپنے گاو¿ں، اپنے کالج اور ان میں بکھری ہوئی یادوں کو خود سے جدا نہیں ہونے دیتے۔یہاں تک کہ وہ بچپن کے ایک دوست کو یاد کرتے ہوئے یادوں کو شاعری میں یوں پروتے ہیں کہ لگ گیا سینے سے میرے دوڑ کر،وہ رو پڑا آج آیا تھا تعلق توڑ کر، وہ رو پڑا گاو¿ں میں اب کون تھا جو عید پر ملتا اسے، راستے میں سے ہی گاڑی موڑ کر، وہ رو پڑا، بٹ گئی تھی دوستوں میں کام، میں اور عشق میں ذات کے ٹکڑوں کو اک دن جوڑ کر وہ رو پڑا سخت پتھر تھا ظہور احمد، ہمارا یار تھا کل سر محفل مگر منہ موڑ کر وہ رو پڑا۔ وہ اپنی ایک نظم "کیسے گزری ہے تم کو بتاتے چلیں” میں لکھتے ہیں” میرے سینتیس برسوں کا پوچھو ہوتم، سامنے ہے تمہارے یہ لو دیکھ لو، میں نے خوش ہو کے، گاتے ہوئے، رقص کرتے ہوئے زندگی کاٹ دی ہم نے قرآں پڑھا اور لہک کر پڑھاجھوم اٹھے بھی ہم۔ جب قوالی سنی تو دھمالیں پڑیں، گم ہوئے بانسری سنتے سنتے کبھی یونہی چلتے گئے، یونہی چلتے گئے، چلتے چلتے یونہی تیرا گھر آگیا ہم نے سوچا چلو رک کے ملتے چلیں اتنے برسوں کے چلتے ہوئے آئے ہیں ہم محبت کے مارے ہوئے لوگ تھے، اب بہت دور لیکن نکل آئے ہیں سیر کرتے ہوئے پھر بھی فرصت ملی تو کبھی اس کے کوچے بھی ہو آئیں گے“۔ظہور احمد کی ایک پنجابی نظم "حضرت بری امام سرکار دی خدمت وچ” بہت مشہور ہے۔جس کے اشعار یوں ہیں” ایہناں رتیاں تے ساویاں جھنڈیاں دے نال تیرے میلے وچ آئی آں میں سنگیاں دے نال ایہناں پیراں وچ شہر وسا چھڈیا میرے جئیاں ایس شہر گوا چھڈیا تساں چور پور، نور پور کر چھڈیا اساں نور پور نشے نال بھر چھڈیا “محترم ظہور احمد نے فارسی زبان میں شاعری کی ہے ” نمی دانم کہ چہ ہستی و چہ مستی نمی دانم و چہ اقبال می گوئی و چہ رومی نمی دانم منم غافل ز راہ عشق و کسب صوفیاں احمد کتاب فلسفہ خوانم مگر وہبی نمی دانم ظہور احمد گنہگارم کہ اندر بے حضوری ام گہے جہری نمی خوانم گہے قلبی نمی دانم “ان کی شاعری سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ روایت سے جڑے ہوئے انسان ہیں اور ان کے سینے میں دھڑکتا ہوا حساس دل ہے۔ ستم یہ ہے کہ ایک شاعر کو مشکل ترین دور میں مشکل محاذ سونپا گیا ہے۔ وہ سمجھدار آدمی ہیں، لازماً اپنے عہدے اور کام سے انصاف کریں گے اور خلوص دل سے عوام کی خدمت کریں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے