کالم

نوازشریف کی نومنتخب وزیراعظم مودی کو مبارکباد

برصغیر کی تاریخ میں سماج اور سیاست کے ممتاز گرو چانکیہ کوتلیہ نے یہ ضرور کہا ہے کہ ہمسائے کا ہمسایہ بہترین دوست ہوتا ہے مگر یہ نہیں کہا کہ ہمسائے کوفتح یا تباہ کئے بغیر ترقی اور خوشحالی ممکن نہیں۔ ہندوستان کے پہلے وزیرِاعظم جواہر لال نہرو چانکیہ کو اپنا روحانی گرو کہا کرتے تھے۔شاید اسی لئے بھارت کی خارجہ پالیسی پر چانکیہ کی فلاسفی کے اثرات کا عکس پوری طرح موجود ہیں۔ نہرو سے لے کر مودی تک بھارت کے حکمرانوں نے پاکستان اور بھارتی مسلمانوں کے سامنے دوستی محبت بھائی چارے اور امن کا ہاتھ تو بڑھامگر گلے لگا کر پیٹھ میں چھرا گھونپتاہے۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے نریندر مودی کو تیسری بار وزیراعظم بننے پر مبارک باد دیتے کہا ہے ہمیں نفرت کو امید سے بدلنا چاہیے اور جنوبی ایشیا کے دو ارب عوام کے مستقبل کو بنانے کے لیے اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ نریندر مودی نواز شریف کی طرح وزیر اعظم کے عہدے پر تیسری بار منتخب ہوئے ہیں۔ نریندر مودی نے نواز شریف کے پیغام کا جواب دیتے ہوئے کہا، ”آپ کے پیغام کی قدر کرتے ہیں۔بھارت کے عوام ہمیشہ امن، سلامتی اور ترقی پسند خیالات کے حامی رہے ہیں۔ اپنے عوام کی فلاح و بہبود اور سلامتی کو آگے بڑھانا ہمیشہ ہماری ترجیح رہے گی۔ نواز شریف نے 2014 میں نریندر مودی کی پہلی تقریب حلف برداری میں شرکت کی تھی جبکہ نریندر مودی نے بھی عہدہ سنبھالنے کے ایک سال بعد پاکستان کا مختصر دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے لاہور میں نواز شریف کی نواسی کی شادی میں شرکت بھی کی تھی۔ اس سے مفر نہیں کہ نواز شریف اور مودی کی باڈی کیمسٹری ملتی ہے مگر جہاں تک نوازشریف کی خطے میں بسے دوارب انسانوں کے مستقبل کے لئے مل کر کام کرنے کی خواہش کا تعلق ہے تو پاکستانی قیادت کی طرف سے اس قسم کی خواہش کا اظہار پہلی بار نہیں کیا گیا۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی کینیڈا کے صحافی کے سوال کے جواب میں یقین کے ساتھ کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت کے امریکہ اور کینیڈا کی طرح مثالی تعلقات ہوں گے۔ جواہر لال نہرو نے بھی پندرہ اگست کی صبح اپنے ریڈیو خطاب میں کہا تھا کہ آج ہندوستان آزاد ہو گیا مگر انہیں یہ سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ وہ ہندوستانیوں کو آزادی کی مبارک باد دیں یا آزادی کے موقع پر فرقہ وارانہ فسادات میں کھیلی گئی خون کی ہولی پر دکھ کا اظہار کریں۔ نہرو کی ریڈیو پر خطاب اپنی جگہ مگر جب دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لئے عملی اقدامات کا وقت آیا تو انہوں اپنے سیاسی گرو چانکیہ کے فلسفے پر ہی عمل کیا دشمن کی طرف دوستی و محبت سے آگے بڑھو، اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھاﺅ، جب وہ قریب آئے تو اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دو، پھر اس کے ساتھ مل کر بچاﺅ، بچاﺅکی صدا لگاو اور جب دشمن مرجائے تو اس کی لاش پر بین کرو گرو کی نصیحت کے مطابق جونا گڑھ اور کشمیر پر فوج کشی کے بعد خود ہی بچاﺅ بچاﺅ کا راگ الپتے ہوئے مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ لے گئے اور سری نگر سٹیڈیم میں کشمیریوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کشمیر کی قسمت کا فیصلہ کشمیریوں کی مرضی کے خلاف نہیں کرے گا ۔ نہرو ہی کیوں ان کی نواسی وزیراعظم بنی تو انہوں نے سقوط ڈھاکہ کا جشن یہ کہہ کر منایا کہ میں نے آج دوقومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے بعددونوں ممالک اور خطہ مستقبل کے لئے سابق صدر مشرف اور بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے امن کی سنجیدہ کوشش کی۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے بھارت کا دورہ کیا اور بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سے آگرہ میں طویل مذاکرات ہوئے۔ ان مذاکرات سے اگرچہ بڑی توقعات ظاہر کی گئیں مگر آگرہ میں دو روزہ سربراہی ملاقات میں ڈرامہ یوں ہواکہ دنیا کو دکھانے کے لئے دونوں رہنماوں اور ان کے وزرائے خارجہ کے درمیان طویل ملاقاتوں کے نتیجے میں مشترکہ معاہدے پر پہنچنے کے لیے صرف کوششیں ہی ہوئیں۔اس کے بعد مودی اور میاں نواز شریف بھی ناکام کوشش کر چکے ہیں۔ مودی نے تو ایک عوامی اجتماع میں یہ گلہ بھی کیا تھا کہ بھارت پاکستان کے ساتھ امن کے ساتھ رہنا چاہتا ہے، بات چیت بھی کرنا چاہتا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ بھارت کیا دنیا میں کسی کوبھی یہ معلوم نہیں کہ پاکستان میں فیصلوں کا اختیار کس کے پاس ہے۔ بھارت امن کی بات کرے تو کس سے کرے!! مودی جی کی یہ پریشانی اپنی جگہ مگر شاید مودی جی کو سابق صدر مشرف کی یہ بات یاد نہیں جب مشرف غصے میں اٹھ کر چلے گئے تھے۔ مشرف کے مطابق وہ آگرہ سے روانہ ہونے سے قبل رات گئے واجپائی سے ملاقات کرنے گئے اور انہوں نے واجپائی کو دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ لگتا ہے ہم دونوں سے اوپر کوئی ہے جو ہم پر غالب آنے کی طاقت رکھتا ہے۔ انہوں نے انہیں یہ بھی کہا کہ ہم دونوں کی تذلیل ہوئی ہے۔ آگرہ سمٹ میں عین وقت پر مذاکرات کی میز الٹ دینا جہاں مشرف اور واجپائی کی بے بسی کی دلیل ہے وہاں اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کے معاملے میں دونوں ممالک کی قیادت کے علاوہ کوئی ایسی طاقت ہے جس کا مفاد دونوں ممالک کے سینگ پھنسائے رکھنے میں ہے۔ میاں نواز شریف نے ایک بار پھر خطہ کے دو ارب انسانوںکے مستقبل کے لئے مودی کو مل کر کام کرنے کا صائب مشورہ دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں ممالک کی قیادت خواہشات سے بڑھ کر عملی اقدامات کی ہمت اور اختیار بھی رکھتی ہے؟ مودی ایسا کر سکتے ہیں اگر وہ چانکیہ کے فلسفے کے بجائے نکولس سومز کے مشورہ کو دل سے قبول کر لیں نکولس نے کہا ہے ہماری آزادی، ہماری خوشحالی اور ہماری سلامتی کا انحصار اپنے پڑوسیوں کی خوشحالی کے لیے مناسب احترام پر ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri