پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شریف لندن میں چار سالہ خود ساختہ جلا وطنی ختم کرکے اسلام آباد سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے جہاں شہباز شریف نے ان کا پُر تپاک استقبال کیا۔ ہزاروں کارکنوں کے جھرمٹ میں انہیں جلسہ گاہ مینار پاکستان لایا گیا۔ نواز شریف نے قوم ترانے اور تلاوت قرآن پاک کے بعد خطاب کا آغاز کیا۔ انہوں نے کہا میرے دل میں انتقام کی تمنا نہیں قوم کی خدمت کرنا چاہتا ہوں جماعتوں اداروں اور ریاستی ستونوں کو مل کر کام کرنا ہو گا ۔ ترقی کےلئے کشکول توڑنا ہوگا ہمسائیوں سے لڑائی نہیں کشمیر کےلئے وقار سے آگے بڑھنا ہو گا۔ بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر میری چھٹی کروائی گئی۔ٍ میں اپنی والدہ اور بیوی کو قبر میں نہ اتار سکا یہ بہت بڑا دکھ ہے۔ ہمیں سرکاری اخراجات میں کمی آمدنی اور محصولات میں اضافہ اور ٹیکس اصلاحات کرنا ہوں گی۔ انہوں نے عوام سے پوچھا کہ آپ کو پتہ ہے کہ دھرنے کون کرا رہا تھا۔ فلسطینیوں کے ساتھ زیادتی قبول نہیں دنیا تنازع کا باعزت حل نکالے۔ اگر مشرقی پاکستان علیحدہ نہ ہوتا تو دونوں پاکستانوںمیں اقتصادی راہداری بن چکی ہوتی۔ پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنا رہے تھے۔ ہمارا بیانیہ اورنج لائن موٹرویز میٹروز اور چاغی کے ایٹمی دھماکوں سے پوچھو۔ کلنٹن کی پانچ ارب ڈالر کی آفر ٹھکرا کر ایٹمی دھماکے کر دیئے۔نواز شریف نے ڈالر روٹی اور پٹرول کی قیمتوں کا اپنے 2017 کے دور سے تقابلی جائزہ پیش کیا۔ انہوں نے کہا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کے لئے ہمیں ڈبل سپیڈ سے کام کرنا ہو گا۔ قائد مسلم لیگ ن یاد گار پاکستان کے وسیع و عریض میدان میں تاریخی جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔ انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن کا یہ سب سے بڑا پاور شو تھا۔ یہ وہی میدان ہے جہاں 1940 میں قرار داد پاکستان منظور ہوئی تھی۔ نواز شریف کے استقبال کےلئے کراچی سے خیبر تک لوگ امڈ آئے تھے۔ نواز شریف کی آمد کے بعد سیاست میں تیزی آ گئی ہے سیاسی جوڑ توڑ اور ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ مولانا فضل الرحمن اور چوہدری شجاعت حسین نے نواز شریف کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا آپ تلخیاں بھلا کر مفاہمت سے کام لیں۔ بلاول بھٹو نے مسلم لیگ ن مخالف سیاست شروع کر رکھی ہے وہ اپنی تقاریر میں لیول پلینگ فیلڈ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق پی ٹی آئی اور پی پی پی اتحاد کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ جس طرح مسلم لیگ ن کو نگران حکومت کی طرف سے فری ہینڈ دیا جا رہا ہے کیا الیکشن میں پی ٹی آئی پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی بھر پور انتخابی مہم چلانے کی اجازت ہو گی۔ عمران خان کو مختلف قسم کے کیسوں کا سامنا ہے ان مقدمات کا کیا فیصلہ ہوتا ہے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔پاکستان کو اس وقت مختلف قسم کے اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایک طرف مہنگائی کا عفریت ہے تو دوسری طرف بڑھتی ہوئی سرحد پار دہشت گردی ہے۔ کئی دہائیوں سے لاکھوں افغان باشندے پاکستان میں مقیم ہیں۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں کلاشنکوف کلچر کو فروغ دیا گیا ورنہ اسلحے کی اس قسم سے عام پاکستانی واقف نہیں تھا۔ افغانستان کی حکومت کو جب بھی موقع ملتا ہے وہ پاکستان کےخلاف بات کرتی ہے۔ چینی گندم اور ڈالرز کی افغانستان کی جانب سمگلنگ کے آگے نگران حکومت نے بند باندھ دیا ہے۔ ورنہ مبینہ طور پر افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی آڑ میں وسیع پیمانے پر اسمگلنگ جاری تھی اور اس کے اثرات پاکستانی معیشت پر واضح طور پر نظر آ رہے تھے۔ ڈالر کی قیمت میں بڑی کمی ریکارڈ کی گئی ہے اور اسٹاک مارکیٹ میں بھی بہتری کا رجحان ہے۔ آئی ایم ایف نے ایف بی آر کی کارکردگی کی تعریف کی ہے کیونکہ ایف بی آر نے رواں مالی سال کے ٹیکس ٹارگٹس حاصل کر لئے ہیں۔ ملک کی تمام پارٹیوں کو اکٹھے بیٹھ کر اس ملک کے مسائل کا حل تلاش کرنا ہو گا خاص طور پر یہ سوچنا ہو گا کہ ملک کو معاشی اور اقتصادی بحران سے کیسے نکالا جائے اس کےلئے چارٹر آف اکانومی پر دستخط کرنے ہوں گے۔ ملک کو مہنگائی بے روز گاری نے جھکڑا ہوا ہے اس کا واحد حل آزادانہ اور غیر جانب دارانہ انتخابات ہیں۔ ابھی تک انتخابات کی حتمی تاریخ مقرر نہیں کی گئی اس لئے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ انتخابات کب ہونگے۔ ملک میں بار بار انتخابات ہوتے رہیں گے تو حقیقی قیادت ابھر کر سامنے آتی رہے گی۔ جیسا کہ دنیا بھر کی جمہوریتوں امریکہ برطانیہ اور بھارت میں ہوتا چلا آ رہا ہے یہی اصلی جمہوریت کا حسن ہے۔