وطن عزیز میں نگران حکومت کی نگرانی میں خوفناک نظام چل رہا ہے۔ جب سے پی ڈی ایم کی حکومت ختم ہوئی ہے تو لوگوں نے شکرانے کے نوافل ادا کئے کہ پی ڈی ایم کی تیرہ جماعتوں نے سولہ ماہ کے دوران میں عوام کو جتنا پریشان کیا شاید گزشتہ 74 برسوں میں عوام کو اتنی تکلیف اور پریشانی کا سامنا کرنا نہیں پڑا۔ شہباز شریف کے زیر قیادت پی ڈی ایم کی تیرہ جماعتوں نے عوام کا جینا حرام کر دیا تھا۔گیس پٹرول بجلی کے علاوہ اشیائے ضرور ت اور اشیائے خوردنی میں بے پناہ اضافہ ہوا اور وہ سولہ ماہ کے دوران میں پی ڈی ایم کی حکومت اپنے مقدمات ختم کرنے کےلئے پار لیمنٹ میں ایسے کام کرتی رہی ۔ انہو ں نے بہت سے قوانین میں ترمیم کی اور نیب اور دوسر ے اداروں پر دباو¿ ڈال کر اپنے مقدمات ختم کرائے۔ اس کے بعد نگران حکومت آئی تو ن لیگ نے قومی اداروں اور نگران حکومت سے ڈیل کر کے تین دفعہ اقتدار سے بے آبرو ہو کر نکلنے والے ایک شخص کو لندن سے واپس بلایا اور اس دوران میں ججوں اور سابق چیف جسٹس کے خلاف نہ صرف بیان بازی کی بلکہ دیگر ججوں کے خلاف توہین آمیز رویہ اختیار کیا۔ اب اسلام آباد ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ نگران حکومت کی نگرانی میں خوفناک نظام چل رہا ہے۔ بےگناہوں کی پکڑ دھکڑ جاری ہے اور ایک سیاسی جماعت سے وابستہ امیدواروں کو کاغذات نامزدگی داخل کرنے سے روکا گیا۔پی ڈی ایم کے سولہ ماہ اور اب نگران حکومت کی زیر نگرانی قائد اعظمؒ کے ارشاد کے برعکس پولیس کو مخالفین کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے بلکہ انہیں مخالفین کو ذلیل و خوار کرنے کی کھلی آزادی دے دی ہے حالانکہ پولیس بھی عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہ لے رہی ہے۔ پاکستان بننے کے ڈیڑھ دو سال کے عرصے کے بعد ہی پولیس اور دوسرے اداروں کومخالفین کے خلاف استعمال کیا گیا۔ سابق فوجی آمر ایوب خان نے فوج کا سربراہ بننے اور اقتدار میں آنے کےلئے ہر قسم کی گھناو¿نی سازش کا ارتکاب کیا۔ ایوب خان نے لیاقت علی خان سے تعلقات کا فائدہ اٹھا کر اس وقت کے سب سے سینئر فوجی افسر میجر جنرل اکبر رنگروٹ کو کسی ایک مقام پر ٹکنے نہ دیا بلکہ ان کو رولنگ سٹاک بنا دیا گیا۔ قائد اعظمؒ جب کوئٹہ گئے تو اس وقت میجر جنرل اکبر کوئٹہ میں تعینات تھے۔انہوں نے قائد اعظمؒ سے ملاقات کر کے شکایت کی کہ ایوب خان ان کےلئے ہر جگہ روڑے اٹکا رہا ہے اور انہیںکسی ایک مقام پر رہنے نہیں دیتا۔ قائد اعظمؒ نے یہ شکایت سن کر فی البدیع فرمایاکہ تم میر جعفر کے پوتے سکندر مرزا سے ڈر گئے ہو، تمہیں چاہیے تھا کہ تم شکایت کرتے اور احتجاج ریکارڈ پر لاتے۔ 1954ءمیں جب آئینی ڈھانچہ تیار ہو چکا تھا تو اس میں دستور ساز اسمبلی نے گورنر جنرل کے اختیارات محدود کردیئے تھے۔ چنانچہ ایوب خان نے ملک غلام محمد پر دباو¿ ڈال کر دستور ساز اسمبلی تحلیل کرادی۔ ایوب خان جب جالندھر میں لیفٹیننٹ کرنل تھے تو مشرق پنجاب میں مسلمانوں کا قتل عام رکوانے میں ناکام رہے۔ ایوب کے خلاف اس زمانے میں کئی اخبارات میں اس بارے میں شکایات بھی شائع ہوئیں۔ قائد اعظمؒ نے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ ریمارکس تحریر کئے کہ ایوب خان اپنے فرائض منصبی اداکرنے کی بجائے سازشوں میں مصروف رہتاہے اس لئے وہ فوج کا سربراہ بننے کے قابل نہیں۔ ایوب خان کی ملازمت ختم ہو رہی تھی تو انہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین سے درخواست کی کہ انہیں ملازمت میں توسیع دے دی جائے۔ خواجہ ناظم الدین مرحوم نے ایوب خان کی یہ درخواست قبول نہ کی اور توسیع دینے سے انکار کر دیا چنانچہ ایوب خان نے غلام محمد کے ذریعے خواجہ ناظم الدین کی کابینہ برطرف کرادی۔ اب بعض سرکاری حلقوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ دنیا میں دو بار اسلامی ریاست قائم ہوئی ۔ پہلی بار مدینہ طیبہ میں رسالت مآب ﷺ کی زیر قیادت اسلامی ریاست وجودمیں آئی۔ اور دوسری بار کلمہ طبیہ کی بنیاد پر قائد اعظم ؒ کی زیر قیادت 14 اگست 1947ءکے مطابق 27 رمضان المبارک ، نزول قرآن کی شب پاکستان وجود میں آیا۔ قوم کی بدقسمتی ہے کہ اسلام کے نام پر ظہور پذیر ہونے والے پاکستان کو سیکولر بنانے کی بھرپور کوشش ہو رہی ہے۔ اگلے روز جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ملک میں قرآن و سنت کا نظام قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔ شکر الحمد للہ کہ اس مرحلے پر مولانا فضل الرحمن کو اسلامی نظام کے نفاذ کا خیال آیا ورنہ وہ جب بھی حکومت میں شامل رہے بلکہ سولہ ماہ پی ڈی ایم کی حکومت کے دوران انہوں نے کبھی نفاذ اسلام کی بات نہیں کی۔ وہ صرف اپنے عزیز و اقارب کو سرکاری عہدوں پر براجمان کرنے کےلئے سرگرم رہے۔ پاکستان تو اسلام کے نفاذ کےلئے قائم ہوا تھا اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی ریاست بنانے کے آرزو مند تھے مگر ان کی رحلت کے بعد سرکاری اداروں ، بیوروکریسی اور لوٹ مار میں ملوث سیاستدانوں نے پاکستان کو اسلام سے دور لے جانے کی کوشش کی۔ ابھی ایک ادارے کے سربراہ نے کہا ہے کہ بعض حلقوں کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ پاکستان اپنا وجود کھوتا جا رہا ہے۔ کیا انہیں معلوم نہیں ہے کہ 1971ءمیں ملک کی بڑی آبادی کا حصہ مشرقی پاکستان اپنوں اور بھارتی حکمرانوں کی وجہ سے پاکستان سے علیحدہ ہوا، ہمارے اداروں کے سربراہوں، بیوروکریسی اور محب وطن سیاستدانوں اور تحریک پاکستان کے زندہ کارکنوں کو اس بات پر بڑی تشویش ہے کہ پاکستان میں اسلام کے نفاذ کی بجائے منظم طریقے سے سیکولرازم کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ 1973ءکے آئین کے مطابق پاکستان میں اردو کو قومی زبان بنانا چاہیے تھا لیکن عدالت عظمیٰ کے اس بارے فیصلے کے باوجود اردو کو قومی زبان کی حیثیت سے دفاتر میں رائج کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے سرکاری ادارے اور لوٹ کھسوٹ میں ملوث سیا ستدان پاکستان کو اسلام سے دور لے جانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان کلمہ طیبہ کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے اور قیامت کی صبح تک قائم دائم رہے گا اور اللہ نے ہی نزول قرآن کی شب پاکستان قائم فرمایا اور اور انشا ءاللہ ذات باری تعالیٰ ہی دشمنوں کی سازشوں کے باوجود پاکستان کو قائم و دائم رکھے گا۔ ہمارے لادینیت کے علم بردار اور بعض سرکاری اداروں کے حکام کو اس بات کی تحقیقات کرنی چاہیے کہ پاکستان کو سیکولر ازم کی طرف لے جانے میں کون لوگ ملوث ہیں۔ اس بارے میں کوئی اعلیٰ سطح کا کمشن قائم ہونا چاہیے جس میں مختلف اداروں کے لوگ اور نظریہ پاکستان پر پختہ یقین رکھنے والے ارکان شامل ہونے چاہئیں جواس بات کا جائزہ لیں کہ وہ کون سے عناصر ہیں جو پاکستان کو سیکولر ازم کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر جنا ب سراج الحق صاحب نے کہا ہے کہ ستر سال سے غریب عوام تعلیم صحت اور بنیادی سہولتوں سے محروم ہے بلکہ ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے جبکہ اشرافیہ کی دولت اور جائیدادوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ۔ آج تک اس ملک میں قومی دولت لوٹنے والوں کا احتساب نہیں ہوا۔ بلکہ بڑی جماعتوں کے کرتا دھرتا قومی لوٹنے میں مصروف ہیں۔ وہ برسر اقتدار آکر ایک دوسرے کےخلاف مقدمات قائم کرتے ہیں ۔ ملک میں احتساب کمشن اور نیب کے ادارے بھی وجود میں آئے اور کرپٹ مافیا کے خلاف مقدمات قائم ہوئے لیکن کرپٹ لوگوں کی دھونس اور ان کے باربار اقتدار میں آنے سے وہ اپنے خلاف مقدمات ختم کرانے میں سرگرم رہے۔ ملک کے بہت سے بدعنوان سیاستدانوں کے دنیا کے پانچ براعظموں کے مختلف ممالک کے بینکوں میں منی لانڈرنگ کے پیسے پڑے ہوئے ہیں۔ اب نگران حکومت جس جانبداری کے ساتھ ایک لوٹ مار کرنے والے شخص کو اقتدار میں لانا چاہتی ہے اور دوسری طر ف ایک بڑی پارٹی کے لوگوں کو انتخاب لڑنے سے روکا جا رہا ہے۔ عوام بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ الیکشن کمشن بھی آزادانہ انتخابات کرانے میں تاحال ناکام نظر آتا ہے۔ اس بارے میں عدلیہ کے ججوں کے فیصلے اور ریمارکس سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ نہ نگران غیرجانبدار ہیں اور نہ ہی الیکشن کمشن و دوسرے ادارے آزاد منصفانہ اور شفاف انتخابات کراتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں ۔ پاکستان اسلام کے نام پر ووٹ کے ذریعے وجود میں آیا ہے۔ 1945-46ءکے انتخابات کے بعد پاکستان میں کبھی بھی شفاف انتخابات نہیں ہوئے۔پاکستان میں گزشتہ 35 برسوں سے لوٹ کھسوٹ کرنے والے سیاسی عناصر اقتدار میں آئے لیکن ان کا کبھی احتساب نہیں ہوا۔ اب مولانا فضل الرحمن نے ایک بار پھر کہا ہے کہ اگر اس ماحول میں الیکشن ہوئے تو زیادہ اچھی امیدیں نہیں رکھنی چاہیئں۔