اداریہ کالم

نگران وزیراعظم کااقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے کلیدی خطاب

idaria

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب کے دوران نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑنے خطاب کرتے ہوئے خطے میں بھارتی دہشتگردی بے نقاب کرتے ہوئے دنیاسے اپیل کی ہے کہ علاقے میں امن واستحکام اور خوشحالی کے لئے ضروری ہے کہ بھارتی دہشتگردی کا مکمل ختم کرایاجائے تاکہ علاقے میں خوشحالی کادوردورہ ہو اور بیروزگاری جیسے اسباب ختم کرائے جاسکیں۔گزشتہ روزنگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78ویں اجلاس سے خطاب میںمسئلہ کشمیر، موسمیاتی تبدیلی، اسلاموفوبیا، فلسطین، افغانستان، پاکستان کے معاشی استحکام ، اقوام متحدہ اصلاحات سمیت علاقائی اور بین الاقوامی امور کا جامع انداز میں احاطہ کیا ۔ وزیراعظم نے تنازعہ کشمیر کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کی کلید ہے۔ جموں و کشمیر کا تنازعہ سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر دیرینہ تنازعات میں سے ایک ہے، بھارت نے سلامتی کونسل کی ان قراردادوں پر عملدرآمد سے گریز کیا ہے جوجموں و کشمیر کے حتمی تصفیہ کا فیصلہ اس کے عوام اقوام متحدہ کی زیر نگرانی رائے شماری کے ذریعے کرنے کا متقاضی ہے۔ اقوام متحدہ اقوام متحدہ کو سلامتی کونسل کی کشمیر پر اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانا چاہئے۔ عالمی طاقتیں نئی دہلی کو اس بات پر قائل کریں کہ وہ پاکستان کی جانب سے سٹرٹیجک اور روایتی ہتھیاروں پر باہمی تحمل کی پیشکش کو قبول کرے۔ دنیا دوسری سرد جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی، بنی نوع انسان کو بہت سے بڑے چیلنجز درپیش ہیں جو عالمی تعاون اور اجتماعی اقدامات کے متقاضی ہیں۔ دنیا کے معاشی امکانات پر بھی تاریکی کے سائے نظر آتے ہیں، عالمی ترقی سست روی کا شکار ہے، سود کی بلند ترین شرح کساد بازاری کا باعث بن سکتی ہے، یکے بعد دیگرے کووِڈ، مختلف تنازعات اور موسمیاتی تبدیلی نے بہت سے ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں کو تباہ کر دیا ہے، بہت سے ممالک بمشکل دیوالیہ ہونے سے بچنے میں کامیاب ہوئے ہیں، غربت اور بھوک میں اضافہ ہوا ہے جس نے تین دہائیوں کے ترقیاتی ثمرات کو متاثر کیا ہے ۔ ایس ڈی جیز سمٹ میں پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کیلئے دور رس وعدے کئے گئے، ان پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔ پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے کوپ۔28 میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ماحولیاتی تبدیلی کیلئے 100 ارب ڈالر کی فراہمی اور ترقی پذیر ممالک کیلئے نصف مالیاتی وسائل مختص کرنے، موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والے نقصانات کے ازالہ کیلئے فنڈز کی فراہمی اور فنڈز کے انتظامات کو فعال بنانے اور گلوبل وارمنگ کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے کے ہدف کیلئے کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی کے اہداف کے حوالے سے کئے گئے وعدوں پر عملدرآمد کا منتظر ہے۔ پاکستان کو درپیش فوڈ فیول اور فنانس چیلنجز کوویڈ ، تنازعات اور ترقی پذیر ممالک پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی وجہ سے ہے، پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ شدید سیلاب نے ملک کا ایک تہائی حصہ ڈبو دیا، پاکستان کی معیشت کو 30 بلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچا۔پاکستان گزشتہ جنوری میں جنیوا کانفرنس میں بحالی اور تعمیر نو کےلئے فور آر ایف پلان کے تحت 10.5 ارب ڈالر سے زائد کے وعدوں کو سراہتا ہے۔ امیدہے ترقیاتی شراکت دار بحالی کے منصوبے کیلئے 13 ارب ڈالر کے اجراءکو یقینی بنائیں گے۔ پاکستان کی حکومت تیزی سے معاشی بحالی کےلئے پرعزم ہے اوراپنے زرمبادلہ کے ذخائر اور کرنسی کو مستحکم کررہی ہے۔ ملکی آمدنی کو بڑھایا جائے گا اورملکی اور بیرونی سرمایہ کاری لائی جائے گی، اس سلسلہ میں ایک خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل قائم کی گئی ہے جس کے تحت زراعت، کان کنی، توانائی اور آئی ٹی سمیت 28 شعبوں کی نشاندہی کی گئی ہے جن میں ترقیاتی شراکت داروں کے تعاون سے منصوبے شروع کئے جائیں گے۔ پاکستان کی پہلی ترجیح افغانستان سے اور افغانستان کے اندر ہر قسم کی دہشت گردی کو روکنا اور اس کا سدباب کرناہے۔ پاکستان ٹی ٹی پی، داعش اور افغانستان سے فعال دیگر گروپوں کی جانب سے پاکستان کے خلاف سرحد پار دہشت گرد حملوں کی مذمت کرتا ہے۔ بدقسمتی سے فلسطین کا المیہ جاری ہے جس میں اسرائیلی فوجی چھاپوں، فضائی حملوں ، بستیوں کی توسیع اور فلسطینیوں کی بے دخلی کا سلسلہ جاری ہے۔ دو ریاستی حل اور جون 1967 سے پہلے کی سرحدوں کے مطابق ایک قابل عمل اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام سے ہی پائیدار امن قائم ہو سکتا ہے جس کا دارالحکومت القدس شریف ہو ۔ پاکستان اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ حال اور مستقبل میں امن و خوشحالی کی تعمیر، تحفظ اور فروغ کےلئے یہ بہت ضروری ہے کہ بڑی طاقتوں کی مخاصمت اور کشیدگی کو کم کیا جائے، اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی قراردادوں پر مسلسل عملدرآمد کیا جائے، تنازعات کی بنیادی وجوہات کو ختم کیا جائے اور طاقت کے استعمال نہ کرنے کے اصولوں کا احترام کیا جائے جبکہ خود ارادیت، خودمختاری اور علاقائی سالمیت، ریاستوں کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت اور پرامن بقائے باہمی کو یقینی بنایا جائے۔ پاکستان ایک نئے ،منصفانہ اور پرامن عالمی نظام کے ان اہم عوامل پر عملدرآمد کیلئے تمام رکن ممالک کے ساتھ مستعدی اور فعال طور پر کام کریگا ۔
سعودی وفد کی سپہ سالار سے ملاقات
سعودی عرب اور پاکستان کے مابین برادرانہ ،دوستانہ تعلقات اورروابط گزشتہ پچھتر سالوں سے قائم چلے آرہے ہیں ،ان تعلقات کی بنیادقائداعظم محمدعلی جناح اورسعودی شاہ سعودنے رکھی تھی تاہم حرمین شریفین سعودی عرب میں ہونے کی وجہ سے یہ روابط صدیوں سے محیط چلے آرہے ہیں ،حرمین شریفین کی وجہ سے ہرپاکستانی کے دل میں سعودی عرب کےلئے جو جذبات پائے جاتے ہیں ان کابیان کرناالفاظ میں ممکن نہیں۔دونوں ممالک کے مابین اقتصادی اوردفاعی تعاون کی ایک مکمل تاریخ موجود ہے اسی حوالے سے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے ایچ ای جنرل فیاض بن حمید الرویلی، چیف آف جنرل اسٹاف سعودی عرب نے اعلیٰ اختیاراتی فوجی وفد کے ملاقات کی ۔ ملاقات کے دوران فریقین نے باہمی دلچسپی کے مختلف شعبوں، دفاع اور سلامتی کے امور سمیت دوطرفہ تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔قبل ازیں وفد نے جوائنٹ اسٹاف ہیڈ کوارٹرز میں جنرل ساحر شمشاد مرزا، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی سے بھی ملاقات کی۔ ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان دفاعی شعبے میں تعاون اور تربیت پر تبادلہ خیال کیا گیا۔اسی طرح سعودی آرمی چیف نے صدر مملکت عارف علوی سے بھی ملاقات کی جس میں انہوں نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تجارت، معیشت اور دفاع کے شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو مزید بہتر بنانے کی خواہش کا اعادہ کیا۔پاکستان سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہت اہمیت دیتا ہے، سعودی عرب نے ہمیشہ مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا۔
مہنگائی کی شرح میں مزیداضافہ
مہنگائی ہے کہ تھمنے کانام ہی نہیں لے رہی، پٹرولیم مصنوعات اوربجلی کی قیمتوں میں اضافے نے عام آدمی کاجینامحال کررکھاہے۔ملک میں مہنگائی کی ہفتہ وار شرح میں تقریبا ایک فیصد کا اضافہ ہوگیا۔ادارہ شماریات کی جاری کردہ ہفتہ وار رپورٹ کے مطابق ملک میں گزشتہ ہفتے مہنگائی کی شرح میں 0اعشاریہ 93 فیصد کا اضافہ ہوا جس کے بعد سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کا مجموعی پارہ 38 اعشاریہ 67 فیصد کی سطح پر پہنچ گیا۔ماہانہ 17ہزار تک کمانے والے افراد کیلئے مہنگائی کی شرح 38 اعشاریہ 27 فیصد، ماہانہ 17 سے 23 ہزار تک آمدن والے افراد کیلئے مہنگائی کا پارہ 41 فیصد جبکہ ماہانہ 30 ہزار کمانے والوں کیلئے مہنگائی کی شرح 39 اعشاریہ84 فیصد ریکارڈ کی گئی۔ ملک میں ایک ہفتے کے دوران 22 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ اور 11کی قیمت میں معمولی کمی ریکارڈ کی گئی، رواں ہفتے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 26 روپے 2پیسے تک کا اضافہ ہوا۔چکن کی فی کلو قیمت میں 31روپے 26پیسے، لہسن کی فی کلو قیمت میں 24 روپے 1پیسے، ایل پی جی کا گھریلو سلنڈر 14روپے 4 پیسے مہنگا ہوا۔گزشتہ ہفتے ٹماٹر کی فی کلو قیمت میں 12 روپے 39پیسے کی کمی جبکہ چینی کی فی کلو قیمت میں 5 روپے 91پیسے اور آلو، گندم کا آٹا، گڑ اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں بھی معمولی کمی ہوئی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے