کالم

نگران وزیراعظم کاکڑ اور علم کی عزت

یہ جانتے ہوئے کہ ؛ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے پہلے پیٹرن ان چیف ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق تھے،اور یہ سمجھتے ہوئے کہ اس ملک کے بڑے تاجر ، صنعت کار اور سرمایہ دار ہمیشہ جرنیلی بندوبست میں ہی سہولت اور فراخی محسوس کرتے ہیں ۔دولت کا انبار ایک بڑے سرمایہ دار کو بھی بہت بڑا ماہر تعلیم منوا سکتا ہے۔ظاہر ہے اگر ہایئر ایجوکیشن ایک نقد آوربزنس ہے، تو پھر بڑے بزنس مین ہی سب سے نمایاں ماہرین تعلیم و تربیت خیال کیئے جائیں گے۔دوسری طرف یہ بھی پاکستانی طرز کی ایک بڑی حقیقت ہے کہ یہاں کوئی بہت صاحب علم و دانش شخص کبھی بھی سرمایے سے قربت اختیار نہیں کر پایا۔بہت زیادہ پڑھا لکھا اور حد درجہ باشعور بھی ہو تو زیادہ سے زیادہ کارل مارکس کی تالیف داس کیپٹل کا اردو ترجمہ سرمایہ اس کے سرہانے پڑی کتابوں میں شامل ہو سکتی ہے اور بس۔ اچھا لمز کی ایک فوقیت یہ بھی ہے کہ لاہور کی ایک نیم مذہبی ،نیم سیاسی جماعت کے ڈنڈا بردار اور گولی مار شرپسندوں کے شر سے آزاد اور محفوظ و مامون یونیورسٹی ہے۔یہاں کا ماحول کیسا بھی کھلا ، آزاد اور مخلوط ہو ،اس نیم مذہبی گروہ کا مذہب خطرے میں نہیں پڑتا۔یہاں کی ثقافتی تقریبات سے دور اور لاتعلق رہنا ایک عبادت کی طرح سے سمجھنے والوں کو اگر پتہ چل جائے کہ پنجاب یونیورسٹی میں طالب علم کوئی ثقافتی پروگرام منعقد کر رہے ہیں تو یہی نیم مذہبی تنظیم یکا یک اسرائیل بن کر تقریب کو غزہ کی پٹی میں بدل دیتی ہے ،تو لمز کی طرف دیکھنا تو درکنار ، اس کے بارے میں سوچنا بھی ان کے لیے ممنوع ہے۔یہ منع کس نے کیا ہے ، صحیح طور پر تو علم نہیں ہے ، لیکن ہاں کبھی کبھی ستم ظریف جو یہ کہتا ہے کہ پیسے سے بڑا مذہب کوئی اور نہیں، تو لگتا ہے کہ اس کی بات میں لاہور کی بعض فتنہ گر تنظیموں کے حوالے سے کچھ وزن ہے ۔لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے طالبِ علموں کو ایک نسبتاً چھوٹے ہال میں جمع کر کے اور تھوڑی سی غیرمتوقع بے تکلفی کا سامنا کر کے ملک کے نگران وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں اس وقت عبوری جمہوریت ہے، مستحکم جمہوریت نہیں۔انہوں نے یہ بھی صاف صاف بتا دیا کہ الیکشن کی تاریخ دینا نگران حکومت کا نہیں، الیکشن کمیشن کا اس اختیار ہے۔ ایک طالبہ کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ صوبہ پنجاب اور کے پی میں میرے وزیرِ اعظم بننے سے پہلے انتخابات تاخیر کا شکار ہو چکے تھے۔ اور آئینِ پاکستان کا آرٹیکل 254 کہتا ہے کہ کوئی کام تاخیر سے ہونے کی وجہ سے غیر آئینی نہیں ہو جاتا۔ وزیر اعظم کے اس جواب میں عقل مندوں کےلئے ان گنت نشانیاں چھپی ہیں۔ایک طالب علم کا سوال جو وزیراعظم کی طالب علموں سے ملاقات کا عنوان بن گیا،اس نے،بالاخر وزیر اعظم کو تھوڑے غصے میں بھی مبتلا کر دیا تھا ،سوال تھا کہ؛ میں سب سے پہلے اپنے دکھ کا اظہار کرنا چاہوں گا۔ سر آپ ایک یونیورسٹی آئے، طلبہ اپنا وقت نکال کر آئے، اساتذہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ پھر بھی 50 منٹ لیٹ آئے ، سر میں اس بات پر شرمندہ ہوں کہ میرے وزیراعظم، بے شک نگران وزیر اعظم، کو علم کی عزت نہیں۔ شاید مجھے ایسا لگا۔ اس سوال کے جواب میں وزیراعظم نے جو کچھ بھی کہا ،بہرحال وہ سب لاجواب ہو کر ہی کہا تھا۔ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز ایک ماڈرن ، آزاد خیال ، آزاد روش اور مہنگی یونیورسٹی ہے۔اس کے طالب علموں کی برتری اور لیاقت کے جو قصے اور تاثر پھیلایا گیا تھا ،وہ کل کی تقریب میں طلب علموں کے مجموعی رویے ،طرز عمل اور سوالات کی ساخت کے حوالے سے پوری طرح سے درست معلوم نہیں ہوتا ۔اسی وزیراعظم کو پنجاب یونیورسٹی ، جی سی یونیورسٹی لاہور ،سندھ یونیورسٹی جامشورو ،بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ یا کراچی یونیورسٹی کے طالب علموں کے سامنے اگر اس یقین دھانی کے ساتھ بٹھا دیا جائے کہ کوئی بھی سوال کرنے پر کسی طالب علم کا مواخذہ نہیں کیا جائے گا ، نہ ہی کوئی طالب علم غائب ہو گا۔تو پھر وزیر اعظم تو وزیر اعظم ، ان کو نامزد کرنے والے بھائی جان بھی بیٹھ جائیں، اکتوبر میں جون کی گرمی اور جولائی کے حبس کی کیفیت پیدا ہو جائے گی۔امر واقعہ تو یہ ہے کہ؛ پاکستانی نوجوانوں نے سننے اور چپ رہنے کے کورسز مکمل کر لیئے ہیں۔اب وہ پاکستان کی تین ناکام نسلوں کو کھری کھری سنائیں گے ۔جہاں مرزا غالب یہ کہتے کہتے زندگی کے اگلے مرحلے کی طرف نکل گئے کہ؛
میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے
وہاں پاکستانی نوجوان اپنا مدعا بیان کرنے کے لیے کسی کی اجازت کا انتظار کرنے پر آمادہ نظر نہیں آرہے۔وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے طالب علموں سے ملاقات کرنے کے لیے آخر لمز ہی کا انتخاب کیوں کیا؟ لگتا یوں ہے کہ یہ موصوف کا اپنا انتخاب نہیں تھا ، بلکہ ان کے کسی سجن بے پروا کی طرف سے تجویز کیا گیا تھا ۔وزیراعظم کو فوری طور پر اس سجن کو تلاش کرنا چاہیئے ،جس نے انہیں لمز یونیورسٹی کے طالب علموں سے خطاب کرنے کا مشورہ دیا تھا۔وہ ادھر اسلام آباد کی کسی بھی یونیورسٹی کے طالب علموں سے خطاب کر سکتے تھے۔سب سے بہتر تو یہ تھا کہ وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں تشریف لا کر طلبہ سے خطاب کر لیتے۔اس میں سب سے بڑا فائدہ تو یہ تھا کہ اوپن یونیورسٹی کے کیمپس میں اسٹوڈنٹس ہوتے ہی نہیں ، وہاں اگر چلتے پھرتے نظر بھی آ جائیں ، وہ سفر سے تھکے ہوئے ، اداس اور عموماً معاشی طور پر کمزور پس منظر کے طالب علم ہوتے ہیں۔انکے لیے پینٹ کوٹ میں لپٹے کسی وزیراعظم کو براہ راست دیکھ لینا ہی اتنا بڑا واقعہ ہوتا کہ وہ بقیہ عمر اسی سرشاری میں گزار سکتے تھے ۔وہ وزیر اعظم کو واقعتا کوئی ذہین اور زیرک اور نہایت بااختیار منصب دار سمجھتے اور ان کے ارشادات نہایت ادب سے سماعت کرتے ،وہ وزیراعظم کی جیسی تیسی باتوں پر بے تحاشا تالیاں پیٹتے ،اور تقریب کے بعد ایک دوسرے سے پوچھتے کہ وزیر اعظم نے کس موضوع پر کیا باتیں کی تھیں؟ اگر یہی بات وہ اپنے کسی نووارد استاد محترم سے پوچھ لیتے تو جواب ملتا ، میں تو آن لائن بتاو¿ں گا۔اسلام آباد میں قائد اعظم یونیورسٹی بھی ہے اور وزیراعظم ہاو¿س کے بالکل پیچھے کھڑی تانک جھانک بھی کرتی رہتی ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ وہاں کے طالب علموں میں ہمارے بلوچ نوجوان طالب علم بھی موجود ہیں،لیکن قیاس چاہتا ہے کہ وہ اپنے جیسے ایک کم عمر اور بلوچستان سے منسوب وزیراعظم کو دیکھ کر خوش ہو جاتے،اور وہ حشر نہ کرتے جو لمز کے نوجوانوں نے کیا۔اب مشکل یہ ہے کہ لمز کے بے باک طالب علموں کو غائب بھی نہیں کیا جا سکتا ۔کیونکہ ان بچوں پر جادو اثر نہیں کرتا۔قائد اعظم یونیورسٹی کا کوئی طالب علم اگر کوئی شوخی کرتا بھی تو اسے اٹھانا اور چھپانا بہت آسان ہوتا اور کوئی خاص خبر بھی نہ بنتی کہ؛ یہاں کے لیے تو یہ ایک عام سی بات ہے۔میرا خیال ہے کہ اڑتی چڑیاو¿ں کے پر گننے والے ماہرین نے سوچا ہوگا کہ روس کے صدر ولادیمیر پٹن کے ساتھ نہایت درجہ اعتماد کے ساتھ گفتگو کرنے اور چین کے دورے کے بعد وزیراعظم کی شخصیت میں جو اعتماد پیدا ہو گیا ہے ،اسے مناسب سطح پر لانا ازحد ضروری ہے۔شاید اسی لیے بلوچستان سے منسوب وزیراعظم کو لمز کے دولت مند اور حکومتوں، نوکریوں اور اداروں کی چیرہ دستیوں سے بے نیاز نوجوانوں کے سامنے لابٹھایا گیا۔اب مشکل یہ ہے کہ لمز کے گستاخ بچوں کو اٹھا بھی نہیں سکتے ، اور اتنی نقد بستی کے بعد وزیراعظم کو بٹھا بھی نہیں سکتے۔یہی وجہ ہے کہ میری رائے میں وزیراعظم کو سارے کام چھوڑ کر سب سے پہلے اس سجن کا سراغ لگانا چاہیئے ،جس نے ان کی اتنی مہنگی سائیکو تھراپی کا بندوست کیا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے