کالم

نیشنل رحمت للعالمین اتھارٹی کا نیا چیئرمین

پاکستان میں نیشنل رحمت للعالمین اتھارٹی کے قیام کا اعلان پاکستان کے سابق وزیر اعظم نے اسلام آباد میں عشرہ رحمة للعالمین ﷺکانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا۔ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے باقاعدہ طور پر اس اتھارٹی کے قیام کو ایک آرڈیننس مجریہ 14 اکتوبر2021کے ذریعے ممکن بنایا تھا۔ اس آرڈیننس کے مطابق نیشنل رحمت للعالمین اتھارٹی بنیادی طور پر ایک چیئرمین اور چھ اراکین پر مشتمل ہوگی۔ کمیٹی کا ایڈوائزری بورڈ تین مہینوں میں کم از کم ایک بار اجلاس منعقد کیا کرے گا۔ سرکاری طورپر بیان کردہ وضاحت کے مطابق یہ اتھارٹی بنیادی طور پر نوجوانوں کی کردار سازی کے لیے سیرت النبیﷺ اور احادیث پر تحقیق کرے گی۔ یہ اتھارٹی سیرت نبوی ﷺ کو نصاب کا حصہ بنانے کے لیے ماہرین کی مشاورت اور رہنمائی سے تجاویز مرتب کرے گی ۔اس کے علاہ نیشنل رحمت للعالمین اتھارٹی دنیا کے سامنے اسلام کے بارے میں درست آگاہی کےلئے کام بھی کرے گی۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے اس اتھارٹی کے معاملات اور کارکردگی کی نگرانی خود کرنے کا اعلان کرتے ہوے کہا تھا کہ دنیا کے بہترین مذہبی اسکالر کو اتھارٹی کا چیئرمین بنایا جائے گا ۔یہ چیئرمین دنیا کو اسلام کے بارے میں درست حقائق سے آگاہ کرے گا۔سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اس اتھارٹی کے ذریعے پاکستان بھر کے اسکولوں کے نصاب کی نگرانی بھی کی جائے گی۔ اس اتھارٹی کا چیئرمین بنانے کے لیے دنیا کے جس بہترین اسکالر کی تلاش جاری تھی ،وہ عمران خان کوتو نہ مل سکا ، شہباز شریف کو مل گیا ۔ہوا یوں کہ شہباز حکومت نے اس اتھارٹی کو آرڈیننس کی بجائے ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت لانے کےلئے قومی اسمبلی سے ایک خاص بل منظور کروایا اور اس بل میں اس اتھارٹی کا نام نیشنل رحمت للعالمین اتھارٹی کی بجائے نیشنل رحمت للعالمین وخاتم النبیین اتھارٹی میں تبدیل کر دیا گیا۔باقی تفصیلات کم و بیش پہلے والی ہی تھیں۔پھر اسکے بعد اتھارٹی کے لیے ن لیگ سے کامل وفاداری کا ریکارڈ رکھنے والے کی تلاش شروع ہوئی۔ستم ظریف کہتا ہے کہ شہباز شریف کو علم تھا کہ کوئی بھی نہایت اعلی تعلیم یافتہ محقق اور استاد ،جو اسلامک اسٹڈیز اور سیرت پر اعلی تعلیم و تحقیق کا ریکارڈ رکھتا ہو، وہ پڑھا لکھا اسکالر کسی صورت ن لیگ کا کامل وفادار نہیں ہو سکتا۔پھر یوں ہوا کہ شہباز شریف کو اپنی وزارت اعظمیٰ کے آخری چند گھنٹوں میں اچانک وہ گہر نایاب نظر آگیا اور اسے اتھارٹی کا تین سال کے لیے چیئرمین بنا دیا گیا۔ اس نئے چیئرمین کا نام سن کر اور کیریئر دیکھ کر اتھارٹی کے پہلے والے دو چیئرمین یعنی ڈاکٹر اعجاز اکرم اور ڈاکٹر انیس احمد ابھی تک عالم حیرت و استعجاب میں مبتلا ہوں گے۔ممکن ہے کہ عظمت اور علمیت کی اس نئی پہاڑی کی دریافت سے وابستہ مستقبل کے امکانات کو شمار کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔؟ اس بات سے قطع نظر کہ پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں میں اسلامک اسٹڈیز ، عریبک اسٹڈیز اور سیرت چیئرز موجود ہیں اور اعلی سطح کی تعلیم،تدریس اور تحقیق میں مصروف و موثر ہیں۔ہماری یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل اسلامک اسکالرز کو دنیا بھر کی یونیورسٹیوںمیںپذیرائی ملتی ہے پھر اگرچہ ہمارے نصابات میں سیرت اور اسلامک موضوعات کو بڑے اہتمام سے شامل بھی کیا جاتا ہے۔اس سب کی موجودگی میں ،خاص انہی مقاصد کی تکمیل کےلئے ،جو پہلے ہی پورے کیے جارہے ہیں ،ایک الگ ، ممتاز اور بالاتر نیشنل رحمت للعالمین اتھارٹی کا قیام یقینا عمران خان حکومت کے مذہبی بیانیے کی تقویت سے تعلق رکھتا ہو گا۔ عمران خان کے دور میں تو اس اتھارٹی کا چیئرمین ایک اعلی تعلیم یافتہ یونیورسٹی ٹیچر ڈاکٹر اعجاز اکرم کو بنایا گیا تھا،ان کے بعد ایک بڑے غیر متنازعہ اسکالر ڈاکٹر انیس احمد اسکے چیئرمین رہے ،جنہوں نے بعد میں بوجوہ شہباز شریف حکومت کو استعفیٰ پیش کر کے
اپنے مقام پر واپسی کو ترجیح دی تھی لیکن شہباز شریف نے اپنی وزارت اعظمی کے آخری روز اس اتھارٹی کے نئے چیئرمین کا تقرر کر کے یہ ثابت کردیا ہے کہ واقعی اس اتھارٹی کے قیام کے مقاصد سراسر سیاسی ہیںاور سیاست بھی وہ جو صرف ن لیگ کے سیاسی موقف پر مدار کرتی ہو ۔ دراصل پاکستانیوں کے لیے دستیاب اردو میں ترجمہ کی گئی کتب تاریخ میں قحط الرجال اس کثرت سے پڑھنے کو ملتا ہے کہ حیرت ہونے لگتی ہے۔لیکن یہ لفظ اپنے لغوی معنی سمیت پاکستان میں اپنی معنویت کو اس طرح سے مسلط کردے گا،اس کا گمان تک نہیں تھا۔پاکستان میں علوم اسلامی کے فاضل اساتذہ اور محققین و مصنفین کی کبھی کوئی کمی نہیں رہی۔نام لینا مناسب نہیں ،لیکن خیال یہی ہوتا ہے کہ بڑے اور ارفع علمی اور تحقیقی اداروں کے سربراہان کا تقرر حد درجہ احتیاط اور شفاف طریقے سے کیا جاتا ہے۔یہ اندازہ ناممکن تھا کہ اپنے مختصر دور وزارت اعظمی کے بالکل آخری روز پاکستان تحریک انصاف کے قائم کردہ ادارے نیشنل رحمت للعالمین و خاتم النبیین اتھارٹی میں ن لیگ کے پینل میں شامل ایک صحافی کا بطور چیئرمین تقرر کر دیا جائے گا۔یہ تقرر بھاری تنخواہ(یم پی ون)پر تین سال کے لیے کیا گیا ہے۔ خورشید احمد ندیم اس درجے کے عالم، اسکالر اور دینیات کے ماہر نہیں ہیں ،نہ ہی سیرت پر ان کا ایسا وقیع کام ہے نہ ہی ان کا یونیورسٹی ٹیچنگ اور ریسرچ سے تعلق رہا ہے ۔ہاں ن لیگ کے بعض لوگوں سے انکا تابعدارانہ تعلق ضرور ہے۔ ن لیگ کے سیاسی بیانے پر کالم نگاری کی بھی ایک مضبوط روایت رکھتے ہیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر مختلف سماجی موضوعات پر پروگرام بھی کرتے ہیں۔صحافتی معاملات میں وہ اپنا رجحان اور رائے ،نیز پسند ناپسند رکھنے کا پورا حق رکھتے ہیںلیکن نیشنل رحمت للعالمین و خاتم النبیین اتھارٹی کا مقام بہت بلند ہونا چاہئے۔اس پر مکمل طور پر غیر جانبدار علمی شخصیت کا تقرر کیا جانا چاہئے تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے