امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں سکھوں نے بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر بھارتی سفارتخانے کے باہر زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا۔ بھارتی تارکین وطن سکھوں کی ایک بڑی تعداد نے سفارتخانے کے سامنے جع ہو کر شدید احتجاج کیا۔ انہوں نے خالصتان کے حق میں اور بھارتی حکومت کی طر ف سے ملک میں سکھوں اور دیگر اقلیتوں پر مظالم کے خلاف فلک شگاف نعرے لگائے۔انہوں نے خالصتان کے پرچم بھی اٹھا رکھے تھے۔ انہوںنے” ہم لیکر رہیں گے خالصتان: پنچاب ، ہریانہ ، دلی بنے گا خالصتان ، خالصتان زندہ باد، مودی مردہ باد اور بھارت مردہ باد “جیسے نعرے لگائے۔اس موقع پر مقررین نے بھارتی سفارتخانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ دراصل سفارتخانہ نہیں بلکہ قاتل خانہ ہے جہاں سکھوں کے قتل کے منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ مودی حکومت بھارت کے علاوہ کینیڈا، امریکہ اور دیگر ملکوں میں سکھوں کے قتل میں ملوث ہے۔ 1947میں بھارت آزاد تو ہو گیا لیکن سکھ ایک مرتبہ پھر غلام بن گئے اور ہم غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔سکھ بیرون ممالک خالصتان ریفرنڈم کا انعقاد کر وا کر کے بھارت پر واضح کر رہے ہیں کہ سکھ خالصتان کی تحریک سے ہرگز پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ خالصتان کے حوالے سے یہ ریفرنڈم اقوام کے چارٹر کے مطابق ہیں اور اس حوالے سے مودی حکومت کا شور شرابہ سراسر بلا جوا ز ہے۔ مودی حکومت بھارت میں اقلیتوں کا بڑے پیمانے کا قتل عام کر رہی ، اس نے سکھوں سمیت دیگر اقلیتوں کیلئے بھارت کی زمیں تنگ کر رکھی ہے۔وہ آزادی مانگنے کی پاداش میں کشمیریوں مسلمانوں کی نسل کشی کر رہی ہے۔ آزادی سب کا حق ہے لہٰذا کشمیریوں کو بھی یہ حق ضرور ملنا چاہیے۔سکھ بھارتی یوم آزادی کو نہیں مانتے ہیں اور امریکہ کے مختلف شہروں سے یہاں محض اس وجہ سے جمع ہو ئے ہیں تاکہ مودی حکومت کو یہ واضح پیغام دیں سکے کہ سکھ خالصتان کے قیام تک ہرگز چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ مظاہرین نے اس موقع پر بھارتی ترنگا بھی نذر آتش کیا۔ خالصتان نوازتنظیم سکھز فار جسٹس (ایس ایف جے) کے رہنما گرپتونت سنگھ پنوں نے کہا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سکھوں کے خلاف براہ راست اور آلہ کاروں کے ذریعے نفرت انگیز مہم کو ہوا دے رہے ہیں جبکہ کیلگری میں ہونے والے خالصتان ریفرنڈم سے قبل ہندوستانی اور کینیڈین سکھوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہورہا ہے۔بھارت میں سکھ برادری کے خلاف مظالم کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ جون 1984ءمیں بھارتی حکومت نے گولڈن ٹیمپل امرتسر پر حملہ کیا تھا جس کے دوران 5 ہزار سے زائد سکھوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔آپریشن بلیو اسٹار میں سکھوں کے روحانی پیشوا جرنیل سنگھ بھنڈرا نوالے مارے گئے تھے، آپریشن میں امریک سنگھ اور میجر جنرل ریٹائرڈ شاہ بیگ سنگھ بھی مارے گئے تھے۔ گولڈن ٹیمپل آپریشن کے بعد بھارتی فوج میں سکھو ں نے وسیع پیمانے پر بغاوت کی تھی۔ بھارت کی موجودہ صورتحال میں یہ سوالات نہایت شدت کے ساتھ پوچھے جا رہے ہیں کہ کیا بڑھتی شدت پسندی کے باعث بھارت خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے؟ اورکیا انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں اور سکھوں پر ہونے والے مظالم کا نوٹس لیں گی؟سوال یہ ہے کہ آخر اس وقت ہی کیوں خالصہ تحریک دوبارہ زور پکڑ رہی ہے۔ تو جواب بڑا سیدھا سا ہے کہ ہندوستان میں ایک بہت بڑی اور منظم تحریک ہے جو ہندوستان کی ریاست کو مذہبی انتہا پسندانہ پیرائے میں چلانا چاہتی ہے۔ یہی سوچ اور تحریک ہے جس کی وجہ سے پاکستان وجود میں آیا۔ یہی سوچ اور تحریک ہے جس نے کشمیر کو دھونس کے ذریعے ہندوستان میں شامل کر کے جنوبی ایشیاء کے امن کو تباہ کیا اور یہی سوچ ہے جس کے نتیجے میں سکھوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہندوستان میں رہنے کے لیے تیار نہیں ہے۔حد تو یہ ہے کہ وہ شخص جو ہزاروں مسلمانوں کے قتل کا ذمہ دار گردانا گیا، اسے انتخابات میں تاریخی فتح حاصل ہوئی۔ فسطائی نریندر مودی کی قیادت میں بھارت اقلیتوں کے لیے ایک خطرناک جگہ بن گیا ہے کیونکہ مسلم مخالف نفرت مودی کی فطرت میں شامل ہے۔ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مودی کے بھارت میں مسلمانوں کو نسل کشی کی دھمکیاں معمول بن گیا ہے اور 2019ءمیں ان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے مسلم مخالف تشدد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ مودی کا ہندوتوا رہنماو¿ں سے گہرا تعلق ہے جو بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ مودی 2002ء میں گجرات میں مسلم مخالف فسادات کا ماسٹر مائنڈ تھا اور وہ مسلمانوں کے خلاف جرائم کے لیے دنیا کے ہمہ وقتی ظالموں کی فہرست میں سرفہرست ہے۔ مودی کا ہندوتوا نظریہ دنیا کے امن کےلئے خطرہ ہے اور مسلمانوں کے خلاف جرائم کےلئے اسے قانون کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔