کالم

وزارت برائے دشنام طرازی

شہباز شریف نے بڑی محنت ، قیمتی مشاورت، کڑی تربیت،جس میں تیز تیز چلنے کی مشق بھی شامل تھی ، کے بعد اپنے وزیراعظم بننے کے جنون کی تسکین کا سامان کر ہی لیا۔معلوم نہیں بڑے بھائی جان کیسے مانے ہوں گے؟ پر جو بھی ہوا ،بڑے بھائی جان نواز شریف کو پچاس روپلی کے ضمانت نامے پر طبی وجوہ پر ،خود اپنی ہی ضمانت پر لندن کی طرف روانہ کر کے ، نہایت تنگ معاشی حالات میں سوٹ پہن کر تیز تیز چلنا اب بھی ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ملک کی دگرگوں معاشی حالت نے میاں صاحبان کی خوشحالی کو بالکل متاثر نہیں کیا۔ کل انہوں نے بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے ملنے والی کمک کے نتیجے میں قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ بھی حاصل کرلیا ۔لیکن یہ اعتماد کا ووٹ شہباز شریف کے اعتماد کو اور کتنی دیر بحال رکھ پائے گا؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔بطور وزیر اعظم شہباز شریف کا طرز عمل بات بے بات گبھرا جانے کا رہا ہے ،یہی وجہ ہے کہ آصف علی زرداری حکومت کے تمام اتحادیوں کو اپنی حکمت اور تدبر سے منائے اور سمجھائے رکھتے ہیں ،کہ آئندہ الیکشن تک اس حکومت کو اپنے حجم اور اپنے عزم کے ساتھ قائم رکھنا ضروری ہے ۔ہاں البتہ ایک مصدقہ اطلاع کے مطابق آصف علی زرداری اپنی تمام تر دانش اور سیاسی بصیرت کے باوجود شہباز شریف یعنی ن لیگ کے دل سے الیکشن کے انعقاد کا خوف نکالنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے ۔ بقول ستم ظریف ن لیگ کی انتخابی سیاست کا لونگ گواچ چکا ہے ،یعنی گم ہو چکا ہے۔وہ ن لیگ جو سال پہلے اپنے ٹکٹ کی مقبولیت اور محبوبیت کے نشے میں سرشار تھی ، آج اپنی حکومتی کارکردگی کی بنیاد پر اس نشے کے اثرات سے نجات پا چکی ہے۔پنجاب کی اقلیم سیاست میں اسے ندامت کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ایک خواب کبھی کبھی ن لیگ کے سہمے ہوئے لیڈروں کو آتا اور ستاتا رہتا ہے کہ نواز شریف لندن سے ہوائی جہاز پر بیٹھ کر لاہور ایئرپورٹ پر اس شان سے اترے ،جس طرح رہبر انقلاب ایران پیرس سے تہران ائرپورٹ پر اترے تھے۔لیکن اس خواب کی تعبیر میں کچھ مشکلات حائل ہیں، ایک تو یہ کہ رہبر انقلاب ایران ذہنی طور پر صحت مند تھے، ایماندار اور عالم باعمل تھے ،وہ اقتدار کی بھوک میں مبتلا نہیں تھے،وہ اپنے وزیراعظم بھائی کی شخصی ضمانت پر بوجوہ مفرور نہیں تھے ، اور سب سے بڑھ کر یہ ان کے پاس بہت بڑی اخلاقی قوت تھی۔جبکہ یہ سارا اثاثہ نواز شریف کے پاس نہیں ہے ۔ کچھ یہی وجہ ہے کہ ن لیگ کے وزرا اور نام نہاد دانشور گروپ کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت بڑی عمر کی مطلقہ جیسی ہو چکی ہے، کہ جس کے عقد مزید کا امکان معدوم اور زندگی باقی ہو، وہ ہر وقت غصے میں رہتی اور اپنی گفتگو کو گالیوں سے مزین کرتی رہتی ہے ۔ ن لیگ کے دانشور ونگ اور وزرا کی فوج مایوسی ،بری حکمرانی کی شرمندگی، مقبولیت کے خاتمے کی ندامت اور بوجہ مہنگائی بددعاوں کی فراوانی کے باوجود اپنے نقد مفادات سے غافل نہیں ہوئی ، دوسری طرف تجربہ کار وزرا چڑچڑے ہو کر گالیوں پر اتر آئے ہیں۔اس میدان میں شہرت کا تاج وفاقی وزیر تعلیم کے سر پر اس وقت سجا تھا جب انہوں نے ایک اعلی تعلیمی ادارے میں اسٹیج پر دوران خطاب گالی فائر کر دی تھی ۔یہی وزیر محترم عام گفتگو اور تقاریر میں بھی اپنی مرغوب گالی کو ارشاد فرمانا معیوب خیال نہیں کرتے۔یہ وزیر محترم ن لیگ کی ذہنی کیفیت کی اچھی علامت خیال کیے جا سکتے ہیں ۔سعد رفیق نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ضبط نفس کی کچھ مشق ضرور کر لی ہے۔ اب وہ اپنے چہرے کے تاثرات سے ہی گالی کا مفہوم ادا کر گزرتے ہیں۔مگر جہاں تک ن لیگ کے ایک وفاقی وزیر جاوید لطیف کا تعلق ہے ، وہ دشنام طرازی میں ذرا سی ججھک محسوس نہیں کرتے ۔ابھی چند روز پہلے مسلم لیگ ن کے وزیر پارلیمانی امور مرتضی جاوید عباسی اور وفاقی وزیر جاوید لطیف کسی بات پر الجھ پڑے۔اجلاس جاری تھا اور قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران ہی وفاقی وزیر بے محکمہ جاوید لطیف کی اعصاب شکنی نے اتنی شدت اختیار کی کہ انہوں نے اپنے ہی ایک ساتھی وفاقی وزیر پارلیمانی امور مرتضی جاوید عباسی کو بلند آواز میں ایک نہایت قابل اعتراض اور قابل گرفت گالی سے نواز دیا۔ شاید جاوید لطیف نے اب تک نواز لیگ کا یہی مطلب سمجھا ہو ؟ واقفان حال بتاتے ہیں کہ قومی اسمبلی کے آیات قرآنی سے مزین ہال میں جاوید لطیف کی افسوسناک گالی ابھی تک گونج رہی ہے۔ جاوید لطیف نے ماضی میں بھی مراد سعید کےساتھ ایک اسی طرح کا قضیہ کھڑا کر دیا تھا۔اب ان کے ڈیپریشن کی وجہ بھی سمجھ آرہی ہے ۔جن کو ووٹ کی طاقت کا زعم تھا ،وہی مہنگائی کے ستائے اپنے ووٹرز کے غصے کے ہاتھوں پریشان ہیں۔اور ہر سامنے آنے والے کو گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں۔ستم ظریف کا خیال ہے کہ ن لیگ کو مستقبل میں درپیش الیکشن کا سامنا کرنے کی تیاری اور وفاقی وزیر بے محکمہ جاوید لطیف کو مصروف کرنے کے لیے ایک نئی وفاقی وزارت تشکیل دینی چاہیئے۔اس وفاقی وزارت کا نام "وفاقی وزارت برائے دشنام طرازی ہو سکتا ہے۔ اس طرح ممکن ہے کہ جاوید لطیف دفتر میں بیٹھنے کے بعد پیدل گالی گلوچ ترک کردیں۔دوسرے ملک میں جیسے جیسے الیکشن کا زمانہ قریب آرہا ہے ،ویسے ویسے گالی گلوچ اور ہذیان گوئی کے طوفان کے خدشات بھی بڑھتے جارہے ہیں۔ایسے میں بنیادی ذمہ داری وفاقی حکومت کی بنتی ہے کہ وہ دشنام طرازی کے اس رجحان کنٹرول کرنے کی کوشش کرے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے